جگت موہن رواں | رباعیات تشریح

0

شاعر : جگت موہن لال رواں

تعارف شاعر

آپ اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔ آپ نے بی اے کے بعد ایم اے اور ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ آپ نے رواں تخلص اختیار کیا۔ آپ عزیز لکھنوی کے شاگرد تھے۔ آپ نے غزلیں، نظمیں، قطعات اور رباعیات لکھی ہیں۔

روح رواں کے نام سے ان کا پہلا شعری مجموعہ ۱۹۲۸ میں شائع ہوا۔ رواں کے کلام میں اخلاقیات ، فلسفہ ، سائنس اور انسانی جذبات و احساسات جیسے موضوعات نمایاں ہیں۔ بیان میں سلاست اور روانی ہے۔ دنیا کی بےثباتی ان کے رباعیات کا خاص موضوع ہے۔

دنیا سو سو طرح سے بہلاتی ہے
سامانِ خوشی سے روح گھبراتی ہے
اب فکرِ فنا نے کھول دی ہیں آنکھیں
کلفت ہر بات میں نظر آتی ہے

تشریح :

اس رباعی میں شاعر کہتے ہیں کہ یہ دنیا اور یہاں کے لوگ اور چیزیں انسان کو اپنی جانب ہزاروں طریقوں سے متوجہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن دنیا کی خوشی جو کام کرنے سے ملتی ہے وہ کام کرنے سے میری روح گھبراتی ہے۔ کیونکہ ہمیں اس دنیا سے چلے جانا ہے اور اس کے بعد کی زندگی کی فکر نے میری آنکھیں کھول دی ہیں۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس زندگی کی فکر کی وجہ سے مجھے یہاں کی ہر بات میں دکھ نظر آتا ہے کہ یہ چیزیں تو فنا ہوجائیں گی تو ایسی خوشی کا کیا فائدہ۔

حرص و ہوسِ حیاتِ فانی نہ گئی
اس دل سے ہوائے کامرانی نہ گئی
ہے سنگِ مزار پر تیرا نام رواں
مر کر بھی امیدِ زندگانی نہ گئی

تشریح :

اس رباعی میں شاعر کہتے ہیں کہ انسان کے دل سے اس فانی زندگی کی لالچ نہیں جاتی ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ انسان کے دل سے کامیابی کا لالچ بھی کبھی ختم نہیں ہوتا ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ انسان کے مرنے کے بعد بھی اس کی قبر پر اس کا نام لکھا جاتا ہے یعنی مرنے کے بعد بھی انسان کے دل سے  جینے کی خواہش ختم نہیں ہوتی اور وہ چاہتا ہے سب اسے پہچانتے رہیں۔

کیا تم سے بتائیں عمر فانی کیا تھی
بچپن کیا چیز تھا جوانی کیا تھی
یہ گل کی مہک تھی وہ ہوا کا جھونکا
اک موج فضا تھی زندگانی کیا تھی

تشریح :

اس رباعی میں شاعر کہتے ہیں کہ اے لوگوں ہم تمھیں کیا بتائیں کہ یہ عمر جو ختم ہوجانے والی ہے وہ کیسی تھی۔ وہ کہتے ہیں تمھیں ہم کیسے بتائیں کہ بچپن کیا چیز ہے اور جوانی کسے کہتے ہیں۔ شاعر کہتے ہیں کہ بچپن بالکل پھول کی مہک کی طرح خوبصورت تھا اور جوانی تو یوں محسوس ہوئی جیسے ہوا کا جھونکا، کب شروع ہوئی کب ختم کچھ پتہ ہی نہیں چلا۔ شاعر کہتے ہیں کہ زندگی کیا تھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کہ فضا کی ایک موج تھی جو بہت جلد اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔

مشق :

۱) شاعر کو ہر بات میں کلفت کیوں نظر آتی ہے؟

جواب : شاعر کو ہر بات میں کلفت اس لیے نظر آتی ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ اس زندگی کی فکر کی وجہ سے مجھے یہاں کی ہر بات میں دکھ نظر آتا ہے کہ یہ چیزیں تو فنا ہوجائیں گی تو ایسی خوشی کا کیا فائدہ۔

۲) تیسری رباعی سے تشبیہیں تلاش کریں؟

  • جواب : گل کی مہک : بچپن کا دور
  • ہوا کا جھونکا : جوانی
  • موجِ فضا : زندگی کا دور

۳) دوسری رباعی کا ماحصل لکھیے :

جواب : دوسری رباعی کا ماحصل یہ ہے کہ انسان کے دل سے جینے کی خواہش، کامیابی کا شوق  اور پہچانے جانے کی امید مرنے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتی۔

۴) رواں اناوی کے بارے میں مختصر نوٹ لکھیے :

جواب : آپ اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔ آپ بی اے کے بعد ایم اے اور ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ آپ نے رواں تخلص اختیار کیا۔ آپ عزیز لکھنوی کے شاگرد تھے۔ آپ نے غزلیں، نظمیں، قطعات اور رباعیات لکھی ہیں۔ روح رواں کے نام سے ان کا پہلا شعری مجموعہ ۱۹۲۸ میں شائع ہوا۔ رواں کے کلام میں اخلاقیات ، فلسفہ ، سائنس اور انسانی جذبات و احساسات جیسے موضوعات نمایاں ہیں۔ بیان میں سلاست اور روانی ہے۔ دنیا کی بےثباتی ان کے رباعیات کا خاص موضوع ہے۔

۵) نوٹ لکھیے : رباعی

رباعی :

رباعی لفظ ربعہ سے مشتق ہے جس کے معنی چار کے ہیں۔ صنف رباعی چار مصرعوں کی نظم ہوتی ہے۔ اس پہلا دوسرا اور چوتھا مصرعہ ہم قافیہ ہوتا ہے۔ رباعی کا تیسرا مصرعہ زوردار ہوتا ہے۔ تیسرے مصرعے کا قافیہ الگ یا دوسرے مصرعوں جیسا ہوسکتا ہے۔

رباعی میں عام طور پر حکیمانہ اور عاشقانہ مضامین ادا کیے جاتے ہیں۔ لیکن کچھ شاعروں نے خود کو ان مضامین کا پابند نہیں کیا۔ کہا جاتا ہے کہ پہلی رباعی ایرانی شاعر رودکی نے کہی تھی اور اس کے اوزان و بحور مقرر کیے تھے۔ اردو میں رباعی فارسی زبان سے آئی۔