حد اور تعزیر میں فرق

0
 وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر 
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر 

دنیا میں ہر وہ غلط کام جس کوسرانجام دینے میں ہمارا معاشرہ اور مذہب رکاوٹ پیدا کرتے ہیں، وہ غلط اور ممنوع کام بیمار ذہن رکھنے والےلوگ ہی سرانجام دیتے ہیں۔ اصل میں بیماریاں بھی تو دو قسم کی ہوتی ہیں پہلی قسم میں جسمانی بیماریاں آتی ہیں جن میں بخار، نزلہ، زکام، کوئی جسمانی چوٹ، ہڈی کا فریکچر، سردرد، ہاتھ، بازو یا ٹانگ اور پاؤں سے محروم ہونا، ظاہرسی بات ہے کہ ایسی ہر بیماری کا علاج ہمارے ہاں مختلف طرح کے ڈاکٹر، طبیب، حکیم یا نیم حکیم کسی حد تک کر ہی لیتے ہیں۔ یہاں دوسری قسم کی بیماریوں کا ذکر کیا جائےتو اس میں ذہنی بیماریاں آتی ہیں مثلا:  زنا، زنا بالجبر، شراب نوشی، چوری، راہزنی، ڈاکہ، حسد، بغض، کینہ، طمع، لالچ، ہوس اور بے شمار اسی قبیل کی اور بھی بیماریاں ہیں۔

اب سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ جسمانی بیماریوں کی طرح ان ذہنی بیماریوں کا علاج کیوں کر ممکن ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یہ کسی ڈاکٹر، طبیب، حکیم یا نیم حکیم کا کام نہیں ہے۔ بلکہ ان بیماریوں کا علاج ہماری شریعت “قرآن و سنت” میں ہی موجود ہے۔

ہر ایک معاشرے کو متناسب رکھنے کے لئے کچھ قوانین بنائے جاتے ہیں اگر ان قوانین کی پاسداری کی جائے تو میرا نہیں خیال کہ معاشرے میں سنگین قسم کے جرائم کا سدباب نہ کیا جا سکے۔

اسی طرح اللہ تعالی نے شریعت “قرآن و سنت” کی صورت میں ہمیں 1400 سو سال پہلے ایک جامع اور قابل عمل دستور حیات تحفے میں دیا۔ قرآن و سنت کے اندر مختلف طرح کی حدود کا ذکر بڑے واضح الفاظ میں ملتا ہے اس میں ہر جرم کے مطابق اس کی سزا مقرر کی گئی ہے مثلا ہاتھ کے بدلے ہاتھ کان کے بدلے کان اور جان کے بدلے جان کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ ان کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی عبرت حاصل کر سکیں اور جرائم کے ارتکاب کا خیال ذہن سے نکال باہرکریں۔

اس کے باوجود کچھ جرائم ایسے بھی سرزد ہوتے ہیں کہ وہ حدود کے دائرہ کار میں نہیں آتے بلکہ تعزیر کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت انتہائی ضروری ہے کہ تعزیر اور حد کے اندر فرق کیا ہے۔ تعزیرمیں تمام دینوی سزائیں آتی ہیں جن کو ہم خود اپنے لئے وضع کرتے ہیں اور ان سزاؤں میں ردوبدل کا امکان بھی موقع و محل کے لحاظ سے ممکن ہوتا ہے اور شاید جائز بھی۔ اور یہاں اللہ تعالی کے معاملات کو ہاتھ میں لینے والی بات بھی نہیں ہوتی نہ ہی ہم حدود اللہ میں لغو کر رہے ہوتے ہیں۔

جبکہ اس کے برعکس اگر حدود اللہ پر بات کی جائے تو وہ جس طرح سے شریعت نے متعین کر دی ہیں ان پر ویسے ہی عمل کیا جانا ضروری ہے۔ ہم حدود اللہ کے اندر نہ تو ردوبدل کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کو ملتوی کیا جاسکتا ہے۔ مدعی کے معاف کر دینے پر بھی ریاست کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ حد کا اطلاق کر سکے۔

ایک اسلامی ریاست ہونے کے ناطے سے دیکھا جائے تو ہم اسلام اور اسلامی سزاؤں سے کوسوں دور ہیں۔ ہم سنگین قسم کے معاملات کے اندر بھی حدود کو تعزیر سے Replace کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے جرائم کا خاتمہ ہونے کی بجائے جرائم کی شرح میں حیران کن اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔

اور اسی عمل کی مرہون منت زینب جیسے واقعات دیدہ دلیری سے ہوتے ہیں اور موٹروے سانحہ رونما ہوتا ہے، شراب نوشی عام ہوتی ہے، چوری، ڈاکہ زنی، راہزنی، قتل و غارت جیسے واقعات رات کی تاریکی اور دن کے اجالوں میں بھی رونما ہوتے ہیں۔

موجودہ حکومت کے بارے میں یہ بات بڑے واضح انداز میں کہی جاتی رہی ہے کہ وزیراعظم ایک “Aggressive Personality” کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ابھی حالات سنجیدہ ہیں اور جگ ہنسائی سے بچنے کا ایک سنہری موقع بھی ہے۔ آگے بڑھیں اور خود کو “Aggressive” ثابت کریں یقین مانیں ایک حد کے نفاذ سے پچاس فی صد جرائم کنٹرول ہو جائیں گے اور لوگوں کو عبرت حاصل ہوگی۔ سانحہ موٹروے کی وسیع پیمانے پر تحقیقات ہونی چاہیے اور اس میں جو بھی ملوث ہے ایک ایک کو لٹکایا جائے۔

اگر معاشرے پر اسلامی قانون کی حکمرانی نہ ہو تو انسان اور حیوان میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ اسلامی قانون اخلاق اور انسان کی پرائیویٹ لائف سے بھی بحث کرتا ہے اور سیاسی اور سماجی نظام سے بھی، اسلامی قانون انسانی دنیا کے لیے خدا کا شاندار عطیہ  ہے انسانوں کا بنایا ہوا کوئی قانون اس کی برابری نہیں کرسکتا۔ جب تک دنیا پر اسلامی قانون کی حکمرانی رہی دنیا میں امن و سکون، خوشحالی باقی رہی لیکن جب سے دنیا اسلامی قانون سے محروم ہوئی بدامنی، بد چلنی، غربت، بھوک عام ہوئی، محبت و رواداری نے دم توڑدیا، انسانی قدریں پامال ہوئیں، سارا فلسفہ اخلاق کتابوں کے اوراق تک محدود ہو کر رہ گیا۔

تحریر امتیاز احمد