حسد میں رسوائی ہے

0

قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے! “اور میں پناہ مانگتا ہوں رب کی، حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرتا ہے (الفلق)۔” اس کے علاوہ ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں ! “حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا: مجھے اس کا ڈر بالکل نہیں ہے کہ تم میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے البتہ میں اس بات کا اندیشہ کرتا ہوں کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے دنیا کے مزوں میں پڑ کر حسد نہ کرنے لگو۔” (صحیح  بخاری: جلد دوئم: حدیث نمبر1218)۔ عمر کے کسی حصے میں سنا تھا کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو، یہاں پر بھی لفظ شر کا محرک حسد ہی ہے۔

آج کے مشینی دور میں اگر اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو کئی ایک بغل میں چھپے حاسدین بھی دیکھنے کو مل جائیں گے اور کئی ایک پلکوں پر بٹھائے ہوئے ایسے لوگ بھی مل جائیں گے جن کے شر سے بچنے کی ہدایت کی گئی ہے۔حسد کا مفہوم کسی کی نعمت یا خوبی کا زوال چاہنا یا اس کے چھن جانے کی خواہش کرنا ہے جبکہ رشک میں کسی شخص کی خوبی سے متاثر ہونا اور اس جیسا بننے کی کوشش کرنا ہے۔رشک میں نعمت محسود (جس سے حسد کیا جائے) سے چھن جانے یا اس کو نقصان پہنچ جانے کی کوئی خواہش نہیں ہوتی ہے۔ اس سے انداز ہ ہوتا ہے کہ حسد ایک منفی جب کہ رشک ایک مثبت جذبہ ہے۔ہمارے معاشرے میں حسد کی مختلف صورتیں ہیں: مثلاََ:

1۔ کسی کی اچھی چیزوں سے جلنا جن میں اچھے کپڑے، زیورات، مکان، موبائل، کار، تعلیم، رتبہ وغیرہ۔

2۔ کسی کے ظاہری اوصاف سے حسد کرنا جیسے اچھی شکل و صورت، وجاہت یا شخصیت کے ظاہری خدوخال وغیرہ۔

3۔ کسی کی معاشی و مالی ترقی کا برداشت نہ ہونا۔

4۔ کسی کی باطنی خصوصیات، دین داری، خوش اخلاقی، ملنساری سے حسد کرنا۔

5۔ کسی کی اولاد سے حسد کرنا۔

6۔ کسی کی شہرت سے حسد کرنا۔

7۔ کسی کی اچھی صحت سے حسد کرنا۔

حسد کے بے شمار نقصانات بھی ہیں: مثلاََ

1۔ حسد نفرت کی آگ میں جلاتا ہے۔

2۔ حسد کئی نفسیاتی امراض کا باعث بن جاتا ہے، جیسے غصہ، ڈپریشن، احساس کمتری اور چڑچڑا پن وغیرہ۔

3۔ حسد دشمنی کی طرف لے جاتا ہے۔

4۔ حسد، غیبت، بہتان اور جھوٹ پر اکساتا ہے۔

5۔ حسد میں حاسد کے لئے سب سے بڑی سزا یہی ہے کہ وہ حسد کرتا ہے۔

حسد نے ہماری سوچ ،اخلاق ، عادات و اطوار، ذہن اور جسموں کو کھوکھلا کر چھوڑا ہے۔ آپ جہاں بھی ہیں، کسی دفتر میں ہیں، ڈاکٹر ہیں، پروفیسر ہیں، کاروباری شخصیت ہیں، اسٹوڈنٹ ہیں، کسی سرکاری یا پرائیویٹ ادارے میں ملازمت کرتے ہیں، تو آپ کو جا بجا ایسی ہستیاں لازمی طور پر نظر آتی ہیں جن میں حسد کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہوتا ہے۔ اسی جذبے کے تحت وہ آپ کی جان کے درپے ہوتے ہیں۔

دراصل جس مقام و مرتبے پر آپ ہوتے ہیں حاسدین اس مقام و مرتبے کو پانے کے لئے کوئی (شارٹ کٹ) ڈھونڈنے کے متمنی ہوتے ہیں۔ اگر وہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں اور اس حقیقت کا ادراک ان کو ہو جائے کہ محنت اور جستجو سے وہ بھی اس مقام تک پہنچ سکتے ہیں تو یقینی طور پر ان کے اندر ایسے منفی جذبات پیدا نہ ہوں۔

حسد سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ خدا تعالیٰ پر مکمل ایمان رکھیں۔ محنت اور لگن سے کام کریں۔ آپ کی قسمت بھی بدل سکتی ہے۔ کامیابیاں انسانوں کو ہی ملتی ہیں اور سب انسان ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ اپنے اندر پیدا ہونے والے منفی جذبے یعنی حسد کو رشک کے اندر تبدیل کر لیں۔ کوئی بھی خوبصورت اور انوکھی چیز دیکھ کر دل میں دعا کریں کہ اے اللہ ہمیں بھی یہ سب عطاء کر۔ آپ کو اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہوتا کہ آپ جس سے حسد کر رہے ہیں اس نے اس چیز کے لئے کتنی محنت، مشقت کی ہو گی۔

اسلام نے ہمیشہ حسد کو رشک میں بدلنے کی ہدایت کی ہے تاکہ معاشرہ انتشار کا شکار نہ ہو۔ اسلام ہمیشہ کہتا ہے کہ جب بھی آپ احساس کمتری یا مایوسی کا شکار ہوں تو اپنے سے کم تر (مقام و مرتبے) کے لوگوں کو دیکھا کریں۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو مطمئن کر لیتے ہیں۔ باری تعالیٰ کی تقسیم حکمت سے بھرپورہوتی ہےوہ ہمیشہ اسی کو نوازتا ہے جو اس چیز کا مستحق ہو۔ ہمیشہ یاد رکھیں حسد میں رسوائی ہے اور حرکت میں برکت۔

تحریر امتیاز احمد، کالم نویس، افسانہ نگار
[email protected]