Back to: فیضان رضا
حسن کا بے باکیوں سے سلسلہ بنتا گیا بے حیائی کا ولا میں راستہ بنتا گیا |
تیرے میرے درمیاں جب فاصلہ بنتا گیا دل کا غم سے غم کا دل سے رابطہ بنتا گیا |
ذکر ہوتا تھا محبت کا کبھی جس گھر میں وہ ہجر جاناں کے سبب اک میکدہ بنتا گیا |
رفتہ رفتہ ساری دنیا کو بھلا بیٹھا میں جب ذہن میں یادوں کا اسکی دائرہ بنتا گیا |
اک امید ناز کی خاطر گنوا بیٹھا حیات روگ ایسا لگ گیا جو لا دوا بنتا گیا |
دانہ عاقل صاحب تدبیر زیرک ہوشیار مبتلائے عشق ہو کر باولا بنتا گیا |
ظالم و سفاک و جابر سنگ دل تھا جو کبھی سلطنت میں آ کے پل پل پارسا بنتا گیا |
رہنمائی کی ضرورت تھی جسے فیضان وہ مال و دولت کے سبب سے رہنما بنتا گیا |