حضرت طلحہ بن عبد اللہ کے حالات و واقعات

0

تعارف:☜

طلحہ بن عبید اللہؓ قریش کے ایک تجارتی قافلہ کے ہمراہ جا رہے تھے۔جب یہ قافلہ بصریٰ پہنچا تو بڑے بڑے قریشی تاجر خرید و فروخت کے لئے وہاں کی آباد مقامی منڈی کی جانب چل پڑے۔طلحہؓ ابھی نو عمر تھے اور میدانِ تجارت میں نوخیز؛ لیکن بلا کی ذہانت اور بصیرت کی وجہ یہ میدان تجارت میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہونے کی مکمل صلاحیت رکھتے تھے۔طلحہؓ صبح شام اس منڈی میں جایا کرتے تھے۔جہاں ہر جگہ سے آنے والے تاجروں کا  ہجوم رہتا  تھا۔اس سفر میں انہیں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے انکی زندگی کا  رخ ہی بدل دیا۔

یہ واقعہ حضرت طلحہؓ کی زبانی:☜

یہ نصیحت آموز واقعہ طلحہ بن عبید اللہؓ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم بصریٰ کے بازار میں خرید و فروخت میں مصروف تھے اچانک ایک راہب لوگوں میں یہ منادی کرنے لگا کہ اے تاجروں! مجھے بتاؤ کہ کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص ہے جو مکہ سے آیا ہے۔”میں اسکے بالکل قریب ہی کھڑا تھا میں نے جلدی سے کہا ہاں میں مکہ سے آیا ہوں”! اس نے کہا ” تم میں احمد کا  ظہور ہو چکا ہے”۔ میں نے کہا احمد کون ؟اس نے کہا “ابن عبد اللہ بن عبد المطلب اس مہینہ میں اسکا ظہور ہونا تھا۔” وہ آخری نبیﷺ ہوگا۔ مکہ سے مدینہ طیبہ ہجرت کریگا۔  “اے نوجوانوں تم جلدی سے اسکے پاس چلے جانا”۔حضرت طلحہ کہتے ہیں کہ راہب کی باتیں میرے دل  میں گھر کر گئیں۔میں اپنی سواری لے کر قافلہ کو وہی چھوڑ کر چوکڑیاں مارتے ہوئے مکہ کی جانب روانہ ہوا۔جب میں وہاں پہنچا تو میں نے گھر والوں سے پوچھا کہ کیا ہمارے جانے کے بعد یہاں کوئی نیا واقعہ رونما ہوا۔” اھل خانہ نے جواب دیا کہ ہاں محمد بن عبد اللہ نے اپنے نبی ہو نے کا اعلان کر دیا ہے”۔ اور ابو قحافہ کے بیٹے ابو بکرؓ نے اسکی بات مان لی ہے”۔

طلحہؓ کہتے ہیں کہ میں ابو بکرؓ کو پہلے سے جانتا تھا یہ بڑے نرم دل اور نیک خوں انسان تھے۔اور خوش اخلاق مستقل تاجر تھے۔ہم ان سے مانوس تھے اور انکی مجلسوں میں بیٹھنا پسند کرتے تھے۔کیونکہ یہ قریش کی تاریخ سے بخوبی واقف تھے۔ میں سیدھا انکے پاس گیا اور پوچھا کیا یہ سچ ہے کہ محمد بن عبد اللہ نے نبوت کا دعوٰی کر دیا ہے”۔اور کیا  آپ بھی انکے مطیع اور فرما نبردار ہو گئے ہیں؟ انہوں نے کہا  “ہاں اور پھر وہ مجھے اپنی آپ بیتی بتانے لگے اور مجھے اسلام کی دعوت دینے لگے۔میں نے انہیں راہب کی بات بتائی تو وہ سن کر ششدر (حیران)رہ گئے…انہوں نے کہا ابھی میرے ساتھ چلو اور نبی کریمﷺ کی خدمت میں یہ بات پیش کرو۔اور انکی باتیں سنو تاکہ دائرۀ  اسلام میں داخل ہو سکو۔طلحہؓ کہتے ہیں کہ میں نبی کریمﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا آپﷺ نے میرے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی اور قرآن مجید کی آیات تلاوت فرمایئں اور مجھے دنیا آخرت کی بھلائی کی خوشخبری دی۔

اللہ رب العزت نے  اسلام کے لئے میرا سینہ کھول دیا۔میں نے بصریٰ کے راہب کا واقعہ سنایا۔آپﷺ یہ سن کر بہت خوش ہوئے کہ ایک راہب نے آپﷺ کے ظہور کی خبر دی۔پھر رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہو گئے۔اس قریشی نوجوان کا اسلام قبول کرنا ا سکے  اھل خانہ کو ایسا ناگوار گزرا کہ ان پہ بجلی گر پڑی ہو۔انکے اسلام قبول کرنے کا سب سے زیادہ افسوس انکی والدہ کو ہوا۔کیونکہ انکی ماں کی دلی خواہش تھی کہ میرا بیٹا قوم کا سردار بنے کیونکہ ان میں سردار بننے کی ساری صلاحیتیں موجود تھیں۔

قوم نے آپ کو دین سے منحرف کرنا  چاہا:☜

دین اسلام سے منحرف کرنے کے لیے قوم حضرت طلحہؓ کے پا س آئی لیکن یہ مضبوط چٹان کی طرح اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے۔جب یہ نرمی سے اپنی بات منوانے میں ناکام رہے تو درد ناک تکلیف دے کر اپنی بات منوانے کا حربہ اختیار کیا۔

مسعود بن خراش بیان کرتے ہیں کہ میں صفہ مروہ کی سعی کر رہا تھا تو بہت سے لوگ ایک ایسے نوجوان کے پیچھے لگے ہوئے تھے جسکے دونوں ہاتھ اسکی گردن کی جانب جکڑے ہوئے تھے۔پیچھے سے اسکو عورتیں اور مرد ٹھوکرے مار کر بھاگنے پر مجبور کر رہے تھے۔شور و غل مچاتے ہوئے اسکے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ ان میں ایک بڑھیا عورت چیختی ہوئی اسے گالیاں دے رہی تھی۔”میں نے لوگوں پوچھا  یہ کون ہے؟ لوگ اسکے پیچھے کیوں پڑے ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ یہ عبید اللہ کا بیٹا طلحہ ہے جو بے دین ہو گیا ہے۔اس نے بنو ہاشم کے ایک نوجوان کی پیروی اختیار کی ہے۔میں نے پوچھا اسکے پیچھے یہ بڑھیا کون ہے؟ اس نے کہا اس نوجوان طلحہ بن عبید اللہ کی والدہ صعبہ بنت حضری ہے۔پھر اپنے آپ کو شیر قریش کہلانے والا نوفل بن خویلد اٹھا اور اس نے طلحہ بن عبید اللہ اور ابو بکر صدیقؓ کو ایک رسی میں جکڑ لیا۔اور مکہ کے ادباش نوجوانوں کے حوالے کر دیا تاکہ وہ ان لوگوں کو عبرت ناک سزا دے سکیں۔

آپؓ پر آزمائیشیں:☜

پھر تیزی سے دن گزرنے لگے، واقعات اور داستانیں جنم لیتی گئیں۔اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ ترقی اور کمال کی منزلیں طے کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔اللہ رب العزت کی راہ میں حضرت طلحہ بن عبید اللہ کی آزمائیش دن بدن فزوں ہوتی گئی۔ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ وفاداری میں دن بدن اضافہ ہونے لگا۔یہاں تک کہ مسلمان حضرت طلحہ کو زندہ شہید کے نام سے یاد کرنے لگے۔رسول ﷺ انہیں نیک طلحہ؛سخی طلحہ؛فیاض و فراخ دل  طلحہ کے نام سے پکارتے تھے۔اور انکا ہر لقب اپنے دامن ایک الگ داستان لیے ہوۓ تھے۔

زندہ شہید کا لقب ملنے کی داستان یہ ہے اور جنت کی بشارت :☜

غزوۀ احد میں جب مسلمانوں کو شکست ہوئی تو انصار میں سے صرف گیارہ اور مہاجرین میں سے صرف حضرت طلحہؓ رسول اللہﷺ کے پاس رہ گئے۔باقی سب بکھر گئے۔نبی کریمﷺ اور آپﷺ کے یہ ساتھی پہاڑی پر چڑھ رہے تھے کہ اتنے میں مشرکین کا  ایک جتھا آ پہنچا۔جو آپﷺ کو قتل کر دینا چاہتا تھا۔آپﷺ نے یہ نازک صورتِ حال دیکھ کر ارشاد فرمایا:۔ آپ لوگوں میں کون ہے جو انکو بھگائے؟ وہ میرا جنت میں رفیق ہوگا۔

حضرت طلحہؓ نے جلدی سے کہا میں” یارسول اللہﷺ ! آپﷺ نے فرمایا نہیں تم ابھی رہنے دو انصار میں سے ایک شخص نے فرمایا میں یارسول اللہﷺ ! آپﷺ نے فرمایا ہاں تم مقابلہ کے لیے آگے بڑھو۔وہ انصاری آپﷺ کا حکم پاکر بے جگری سے لڑا یہاں تکہ شہید ہو گیا۔رسولﷺ آپؓ کے ساتھ کچھ اور اوپر چڑھے تو مشرکین نے پھر گھیرا ڈال لیا۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا انکا مقابلہ کون کریگا ؟ حضرت طلحہؓ نے فرمایا میں” یا رسول اللہﷺ ! آپﷺ نے ارشاد فرمایا نہیں تم ابھی نہیں! پھر انصار میں سے ایک شخص بولا میں” یا رسول اللہﷺ ! آپﷺ نے فرمایا  ہاں تم مقابلہ کے لیے آگے بڑھو چناچہ وہ  انصاری صحابی آگے بڑھے اور جامِ شہادت نوش فرمایا۔

رسول اللہﷺ مسلسل پہاڑی پر چڑھتے گئے اور مشرکین بھی مسلسل آپﷺ کے پیچھے رہے یہاں تکہ تمام انصاری صحابی جام شہادت نوش فرما گئے۔اورآخر میں صرف حضرت طلحہؓ رہ گئے۔آپﷺ نے حضرت طلحہؓ کو مشرکین کا مقابلہ کرنے کی اجازت دی۔اس وقت صورت حال یہ تھی کہ نبی کریمﷺ کے دندانِ مبارک شہید ہو چکے تھے۔آپﷺ کی پیشانی خون آلودہ تھی، ہونٹوں پر گہرے زخم آ چکے تھے۔خون آپﷺ کے چہرۀ مبارک پر بہہ رہا تھا۔تھکاوٹ اور زخموں سے آپﷺ نڈھال ہو چکے تھے۔حضرت طلحہ مشرکین پر زور دارحملہ کرتے اور انہیں پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہو جاتے تو تیزی سے نبی کریمﷺ کی جانب جاتے آپﷺ کو سہارا دیتے اور اوپر کی جانب چڑھے۔پھر آپﷺ کو چٹان کی اوٹ میں بیٹھا کر مشرکین پر نئے سرے سے حملہ آور ہوتے۔مسلسل ایسا  ہی چلتا رہا یہاں تکہ یہ مشرکین کو وہاں سے بھگانے میں کامیاب ہو گئے۔

حضرت ابو بکرؓ فرماتے ہیں کہ میں اور ابو عبیدہ بن جراحؓ نبی کریمﷺ سے کافی فاصلہ پر تھے۔جب ہم وہاں پہنچ کر آپﷺ کی مرہم پٹی کرنے لگے تو آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے چھوڑ دو اور اپنے ساتھی طلحہ کی خبر لو۔حضرت طلحہؓ کے جسم سے خون بہہ رہا تھا۔ ان کے جسم پر 70 سے زیادہ نیزوں اور تلواروں کے زخم آ گئے تھے۔ایک ہاتھ بھی کٹ چکا تھا۔ بے ہوش ہو کر ایک گڑھے میں گر چکے تھے۔اس واقعہ کے بعد نبی کریم ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ اگر کسی کو زندہ شہید دیکھنا ہے تو وہ حضرت طلحہؓ کو دیکھ لے۔حضرت ابو بکرؓ فرماتے تھے کہ احد کی لڑائی تو در حقیقیت طلحہ ہی نے لڑی ہے۔یہ ہے آپؓ کو زندہ شہید لقب ملنے کی داستان۔ جہاں تک طلحة الخیر اور نیک دل طلحہ اور طلحہ الجودی یعنی سخی طلحہ ہونے کا تعلق ہے تو اسکے ضمن میں ایک واقعہ:

آپ قاریئن حضرات کی پیش خدمت ہے:☜

حضرت طلحہ بہت بڑے تاجر تھے۔ ایک مرتبہ انکے پاس حضر موت سے سات لاکھ درہم آۓ۔اور یہ رات انہوں نے نہایت ہی غم و حزن و ملال میں گزاری۔آپؓ کی بیوی ام کلثوم بنت ابی بکر صدیقؓ نے پوچھا :… میرے سر کے تاج کیا بات ہے؟ کیا مجھ سے کوئی ایسی بات گزری ہے جو آپکو ناگوار گزری ہو۔فرمانے لگے نہیں آپ تو بہت فرمانبردار اور نیک بیوی ہو۔میں رات بھر یہ سوچتا رہا کہ وہ شخص اپنے رب کو کیا منھ دیکھائے گا جو اپنے گھر میں اس حال میں  رات گزار رہا ہو کہ اس کے پاس کثیر مقدار میں مال و دولت موجود ہے؟بیوی نےکہا بھلا یہ کون سی غم کی بات ہے؟آپ کی قوم اور دوست احباب میں بہت سے ضرورت مند لوگ ہیں۔ صبح ہوتے ہی یہ مال ان میں تقسیم کر دیجیگا ۔اور یہ تجویز سن کر وہ  بہت خوش ہو گئے اور اپنی بیوی کو دعائیں دینے لگے۔جب صبح ہوئی تو تمام مال تھیلوں میں رکھا اور تمام مہاجر و انصار فقراء میں تقسیم کر دیا۔ حضرت طلحہؓ کو خیر وجود کا لقب مبارک ہو جو آپکو رسول اللہ ﷺ نے دیا تھا۔اللہ رب العزت ان سے راضی ہو اور انکی قبر کو منور کر دے۔