حفیظ تائب کی نعت کی تشریح

0
  • نظم : نعت
  • شاعر : حفیظ تائب
  • ماخوذ از : صلواعلیہ وآلہ

تعارفِ نظم :

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی نظم ”نعت“ سے لیا گیا ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام حفیظ تائب۔ یہ نظم کتاب ”صلواعلیہ وآلہ“ سے ماخوذ کی گئی ہے۔

تعارفِ شاعر :

معروف نعت گو شاعر جناب حفیظ تائب ۱۴ فروری ۱۹۳۱ کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوۓ۔ جناب حفیظ تائب کو پنجابی اور اردو کی نعتیہ شاعری میں ایک معتبر مقام حاصل ہے۔ انھوں نے نعت نگاری کے روایتی غزلیہ مضامین سے ہٹ کر نہایت منفرد انداز کی نعت لکھی۔ ۱۹۷۸ء میں آپ کا نعتیہ مجموعہ صـلوا علیہ وآلہ چھپا جسے آدم جی ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ۲۰۰۵ء میں کلیات حفیظ تائب بھی منظر عام پر آ چکا ہے۔

خوش خصال و خوش خیال و خوش خبر، خیر البشر
خوش نژاد و خوش نہاد و خوش نظر، خیر البشر

تشریح : حفیظ تائب اردو نعت میں ایک مستند مقام کے حامل ہیں۔ آپ کو خیالات کے اظہار اور الفاظ کے چناؤ پر مکمل دسترس ہے۔ نعت کے اس مطلع میں آپ نے خوش کے سابقے کے ساتھ پیغمبر آخرالزماں کی متعدد صفات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ آنحضور کی عادات و اطوار مثالی ہیں ، آپ کے خیالات اعلی و ارفع ہیں ، آپ مایوس اور افسردہ لوگوں کو خوشخبری سنانے والے ہیں۔ آپ ایک اچھے اور نیک نام قبیلے سے تعلق رکھنے والے ہیں، اعلی نسل کے سپوت ، لوگوں کی بھلائی چاہنے والے انتہا کے نیک فطرت ، لوگوں کے اچھے پہلووں کو دیکھنے اور برے پہلوؤں کو نظرانداز کرنے والے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کو دنیا میں رحمتہ العالمین اور دنیا والوں کا خیر خواہ بنا کے بھیجا گیا۔ ایک ہی لفظ سے مختلف تراکیب تراشنے کے عمل نے شعر کے حسن کو دوبالا کر دیا ہے۔ شعر کا موتی آہنگ شاعر کے حسن کلام اور زور بیان کو نمایاں کر رہا ہے۔

دل نواز و دل پذیر و دل نشین و دل کشا
چاره ساز و چاره کار و چاره گر، خیر البشر

تشریح : نعت کے اس دوسرے شعر میں بھی تکرار لفظی کے فن سے حسن پیدا کیا گیا ہے۔ دل کے لفظ سے مختلف تراکیب وضع کی گئی ہیں اور سرور کائنات کو انسانی دلوں کو اپنی محبت سے سرفراز کرنے والا ، لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے والا انسانی دلوں پر اپنی محبت کے نقوش ثبت کرنے والا اور افسردہ دلوں کی کلیاں کھلانے والا قرار دیا گیا ہے۔ دوسرے مصرعے میں بھی آپ کی انسان دوستی کو موضوع بنایا گیا ہے کہ انھوں نے ابتلا اور خرابی کے دور میں بھٹکے ہوئے انسانوں کو سیدھا راستہ دکھایا۔ انھوں نے دکھی انسانیت کے غم کو اپنا سمجھا۔ بے چاروں کی چارہ گری کی، گرتے پڑتے لوگوں کی دست گیری کی اور مہر بہ لب ہونٹوں کو حق کی صدا عطا کی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک گنوار ،اجڈ اور وحشی معاشرے کو املی ترین تمدن سے آشنا کردیا۔

سر بہ سر مہر و مروت، سر بہ سر صدق و صفا
سر بہ سر لطف و عنایت، سر بہ سر خیر البشر

تشریح : نعت کے اس تیسرے شعر میں ہادی دو جہاں کی کچھ مزید صفات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ آپ کی ذات بابرکات میں اپنوں اور پرایوں سب کے لیے محبت ،خلوص ، شفقت اور عنایت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے جس کا مظاہرہ آپ کی حیات طیبہ میں قدم قدم پر دیکھنے کو ملتا ہے کہ لوگ آپ کو پتھر مارتے ہیں ، آپ ان کے لیے ہدایت کی دعا کرتے ہیں۔ لوگ آپ پر کوڑا پھینکتے ہیں ، آپ ان کی تیمار داری کو جاتے ہیں۔ اس طرح آپ کی سچائی اور دیانت داری کا یہ عالم ہے کہ بڑے سے بڑا دشمن بھی آپ کو صادق اور امین کے لقب سے پکارتا ہے۔ ایک طرف آپ کے قتل کے درپے ہیں، دوسری طرف امانتیں بھی آپ کے سپرد کی ہوئی ہیں۔ یعنی آپ کی کرم نوازی اور درگزر کا یہ عالم ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر جہاں خود پر ہونے والے تمام مظالم کا حساب لیا جا سکتا ہے، خون کی ندیاں بہائی جاسکتی ہیں۔ اس موقع پر عام معافی کا اعلان کر دیا۔ دنیا میں آپ سے بڑی رحیم اور مہربان ہستی بھلا کون ہوسکتی ہے؟

صاحب خلق عظیم و صاحب لطف عمیم
صاحب حق، صاحب شق القمر، خير البشر

تشریح : جہاں تک آپ کی دیگر صفات کا تعلق ہے تو بے شک آپ کواعلی ترین اخلاق سے نوازا گیا ہے۔ایسا اخلاق کہ جو بھی آپ سے ایک بار مل لیتا آپ کا گرویدہ ہو جاتا۔ اسی صفت سے جل بھن کر دشمنوں نے آپؐ کو جادوگر کے لقب سے مشہور کر دیا۔ یہ جادو دراصل میں آپ کے خلوص، گفتگو اور برتاؤ کا تھا جو ہر جگہ سر چڑھ کے بولتا تھا۔ دوسری جانب آپ کی نوازشات اور مہربانیوں کا یہ عالم تھا کہ چھوٹے بڑے، امیر غریب، مالدار اور غلام، مسلم، عیسائی، اور یہودی غرضیکہ ہر کسی پر اس کا فیض پہنچتا تھا، آپ کے صاحب حق ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب کے بااثر افراد نے آپ کو ہر طرح کا دنیاوی لالچ دے کر محض بتوں کو برا نہ کہنے کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا کہ اگر میرے ایک ہاتھ پہ چاند اور دوسرے پر سورج رکھ دیا جاۓ تو بھی میں حق بات کہنے سے باز نہ آؤں گا۔ آپ کی اسی استقامت، حق گوئی اور اعلی اخلاق کا کرشمہ ہے کہ آپ کے ایک اشارہ خفی پر چاند دو ٹکڑے ہو گیا۔

کار زار دہر میں وجہ ظفر وجہ سکوں
عرصہ محشر میں وجہ درگزر، خیر البشر

تشریح : اس شعر میں شاعر نے زندگی کو میدان جنگ قرار دیا ہے کسی بھی جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے خاص نذیر اور حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔ زندگی کی اس جنگ میں کامران قرار پانے کے لیے آپ کے نقش قدم پر چلنا از حد ضروری ہے۔ زندگی ایک ایسا میدان ہے جہاں بے سکونی اور بے آرامی ہر وقت انسان کو گھیرے رکھتی ہے۔ آپ کے بناۓ ہوۓ طریقوں ہی کے مطابق زندگی گزارنے سے یہاں سکون میسر آ سکتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ قیامت کے روز جب حشر کا میدان ہوگا اور لوگوں کو ان کے اعمال کی جزا اور سزا دی جارہی ہو گی ،وہاں آپ ہی شافع محشر کا کردار ادا کر یں گے اور اپنے امتیوں کے لیے خدا کے حضور درگزر کی درخواست کریں گے۔ کیونکہ آپ خدا کے آخری پیغمبر ہونے کی وجہ سے خدا کو سب سے زیادہ عزیز ہیں۔ شاعر اس شعر میں ہمیں بتانا چاہتا ہے کہ آپ کی ذات مبارکہ ہمارے لیے دنیا کے میدان ہی میں نہیں بلکہ آخرت کے امتحان میں بھی مددگار ثابت ہوگی۔

کب ملے گا ملت بیضا کو پھر اوج کمال
کب شب حالات کی ہو گی سحر، خیر البشر

تشریح : یہ شعر بھی پچھلے شعر کا تسلسل ہے، اس کا انداز بھی دعائیہ ہے۔ اس میں بھی شاعر نے امت کی خستہ حالی کو سوالیہ انداز میں پیش کیا ہے اور سرکار دو عالم سے نظر کرم کا تقاضا کیا ہے۔ شاعر کو امید ہے کہ امت کی اس زبوں حالی میں آپ ہی کی ذات سے امید میں باندھی جاسکتی ہیں۔

شاعر کو احساس ہے کہ کسی زمانے میں یہ ملت دنیا بھر کے لیے نمونہ تھی یہ اخلاق وکمال کی بلندی پر تھی لیکن رفتہ رفتہ اپنی بے عملی اور بے یقینی کی بنا پر یہ ملت اندھیرے کے تاریک گڑھے کی جانب بڑھتی چلی گئی۔ دنیا کو علم کے راستے پر ڈالنے والی قوم آج خود تذبذب کا شکار ہے۔ اے امت کے چارہ گر، اے شفیع معظم! آپ کی اس امت کا شعور کب بیدار ہوگا؟ اس کی بدقسمتی کا دور کب ختم ہوگا؟ اے خیر البشر معاملہ ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا ہے اب، آپ ہی خدا سے دعا کریں کہ وہ امت کی آزمائش کا دورانیہ تمام کر کے اسے دوبارہ قران اولی والا عروج عطا کرے۔

در پہ پہنچے کس طرح وہ بے نوا، بے بال و پر
اک نظر تائب کے حال زار پر، خیر البشر

تشریح : نظم کے آخری شعر میں شاعر اپنی نارسائی اور تنگ دامانی کا تذکرہ کر رہا ہے کہ اے پیمبر اعظم، یہ شاعر ایک ایسے پرندے کی مانند ہے جس کے بال و پر موسموں کی زد میں آ کر ختم ہو چکے ہیں۔ وہ اڑان بھرنے کی سکت سے محروم ہو چکا ہے۔ اس میں اتنی ہمت بھی نہیں کہ تیرے در پہ حاضری دینے پہنچ سکے۔ اس کو باریابی کے لیے بھی آپ کی نظر کرم کی حاجت ہے۔ شاعر نے یہاں عاجزی وانکساری کے انداز میں عشق رسول کی کیفیت کو نظم کر دیا ہے اور اپنی کم مائیگی، محرومی اور دوری کا ذکر کرتے ہوۓ حضوری کی تمنا کا بھی اظہار کر دیا ہے۔

سوال نمبر ۱ : حفیظ تائب کے کسی مجموعے میں سے ایک اورنعت لے کر اپنی کاپی میں لکھیں۔

جواب : حفیظ تائب کی ایک خوبصورت نعت پیش خدمت ہے۔

دے تبسم کی خیرات ماحول کو، ہم کو درکار ہے روشنی یا نبی
ایک شیر میں جھلک، ایک نور میں ڈلک، تلخ و تاریک ہے زندگی یا نبی
اے نوید مسیحا! تری قوم کا حال عیسی کی بھیٹروں سے ابتر ہوا
اس کے کمزور اور بے ہنر ہاتھ سے چھین لی چرخ نے برتری یا نبی
کام ہم نے رکھا صرف افکار سے تیری تعلیم اپنائی اغیار نے
حشر میں منہ دکھائیں گے کیسے تجھے ہم سے ناکردہ کار امتی یا نبی
دشمن جاں ہوا میرا اپنا لہو، میرے اندر عدو میرے باہر عدو
ماجراۓ قید ہے پرسیدنی، صورت حال ہے دیدنی یا نبی
روح ویران ہے، آنکھ حیران ہے، ایک بحران تھا، ایک بحران ہے
گلشنوں، شہروں، قریوں یہ ہے پر فشاں ایک گھمبیر افسردگی یا نبی
سچ میرے دور میں جرم ہے عیب ہے، جھوٹ فن عظیم آج لاریب ہے
ایک اعزاز ہے جبل و بے راہروی، ایک آزار ہے آ گہی یا نبی
زیست کے تپتے صحرا پہ شاہ عرب، تیرے اکرام کا ابر برسے گا کب؟
کب ہری ہو گی شاخ تمنا مری، کب مٹے گی مری تنگی یا نبی؟
یا نبی ،اب تو آشوب حالات نے تیری یادوں کے چہرے بھی دھندلا دیے
دیکھ لے تیرے تائب کی نغمہ گری بنتی جاتی ہے نوحہ گری یا نبی

سوال نمبر ۲۔ اس نعت میں قافیے اور ردیف کی نشاندہی کیے۔

جواب : اس نعت میں خبر ، نظر، گر، سر، قمر، گزر، سفر، بحر اور پر قافیے ہیں جبکہ خیر البشر ردیف ہے۔

سوال نمبر۳ ۔ آپ مندرجہ ذیل سابقوں سے پانچ پانچ مرکب لفظ بتایے۔
دل ، چارہ، سر، صاحب، وجہ، بے۔

دل : دلبر، دلدار ، دل نواز ، دل پذیر، دل نشیں ، دل کشا۔
چارہ : چارہ ساز ، چارہ گر، چارہ کار، چارہ جو، چارہ پرداز ۔
سر : سرکار، سرکش، سر بلند، سرنگوں، سرفراز ۔
وجہ : وجہ ظفر ، وجہ درگزر، وجہ ناکامی ، وجہ کائنات ، وجہ سفر۔
بے : بے نوا، بے بال و پر، بے چارا، بے کار، بے حساب۔

سوال نمبر ۴ : ”صاحب حق ،صاحب شق القمر، خیرالبشر “ اس مصرعے میں شاعر نے کس واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے؟

جواب : اس مصرعے میں شاعر نے اس واقعے کی جانب اشارہ کیا ہے جب آنحضور نے اپنی انگلی کے اشارے سے چاند کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا تھا۔

سوال نمبر ۵ : نظم کے آخری شعر میں شاعر نے کیا دعا مانگی ہے؟

جواب : نظم کے آخری شعر میں شاعر نے دعا مانگی ہے کہ میں آپ کے در پر حاضری دینے کا متمنی ہوں لیکن اپنی خستہ حالی کی بنا پر ایسا کرنے سے قاصر ہوں۔ اے خیرالبشر ،تو میرے حال زار پر کرم کی نظر فرما۔