Back to: فانی بدایونی کی غزلیں
Advertisement
خوشی سے رنج کا بدلہ یہاں نہیں ملتا وہ مل گئے تو مجھے آسماں نہیں ملتا ہزار ڈھونڈیے اس کا نشان نہیں ملتا جب بھی ملے تو ملے آستاں نہیں ملتا مجاز اور حقیقت کچھ اور ہے یعنی تری نگاہ سے تیرا بیاں نہیں ملتا بھڑک کے شعلۂ گل تو ہی اب لگا دے آگ کہ بجلیوں کو مرا آشیاں نہیں ملتا وہ بدگماں کہ مجھے تاب رنج زیست نہیں مجھے یہ غم کہ غم جاوداں نہیں ملتا تری تلاش کافی الجملہ ماحصل یہ ہے کہ تو یہاں نہیں ملتا وہاں نہیں ملتا بتا اب اے جرس دور میں کدھر جاؤں نشان گرد رہ کارواں نہیں ملتا مجھے بلا کے یہاں آپ چھپ گیا کوئی وہ مہماں ہوں جسے میزبان نہیں ملتا تجھے خبر ہے ترے تیر بے پناہ کی خیز بہت دنوں سے دل ناتواں نہیں ملتا کسی نے تجھ کو نہ جانا مگر یہ کم جانا یہ راز ہے کہ کوئی رازداں نہیں ملتا مجھے عزیز سہی قدر دل تمہیں کیوں ہو کمی تو دل کی نہیں دل کہاں نہیں ملتا دیار عمر میں اب قحط مہر ہے فانیؔ کوئی اجل کے سوا مہرباں نہیں ملتا |
Advertisement