خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ، ترجمہ و تشریح

0
  • سبق نمبر 7:

(الف) مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کریں:

۱۔ مندرجہ ذیل احادیث کا ترجمہ تحریرکریں۔

خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ

ترجمہ:

تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن کریم سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔

تشریح:

اس حدیث میں قرآن مجید کے پڑھنے اور پڑھانے والے (معلم و متعلم) کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ قرآن کریم اللہ جل جلالہ کی آخری مقدس کتاب ہے جو حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ پر نازل ہوئی، جو کہ انسانوں کے لیے تاقیامت ضابطہ حیات ہے۔ یہ وہ مبارک کتاب ہے، جس کی حفاظت خوداللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے، جس طرح تمام عالم میں اللہ تعالیٰ بزرگ و برتر ہے، اسی طرح تمام کلام و کتب میں قرآن کریم اعلیٰ اور اتم ہے، اس میں ہمارے نفع و نقصان اور فوزوفلاح کی سب باتیں لکھی ہوئی ہیں، لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم قرآن کریم کو اخلاص کے ساتھ پڑھیں جس کے ساتھ فہم و تدبر اور غور و فکر بھی ہو، دوسروں کو قرآن کریم کی تعلیم دیں، اس کی دعوت کو لوگوں تک پہنچائیں، اور عمل کریں اس کے مطابق عمل کرنے میں دونوں جہانوں کی کامیابی ہے۔

اَوْلَی النَّاسِ بِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اَکْثَرُہُمْ عَلَیَّ صَلَاۃً

ترجمہ:

قیامت کے دن لوگوں میں مجھ سے سب سے زیادہ وہ شخص ہوگا جو کہ مجھ پر سب سے زیادہ درود شریف بھیجنے والا ہوگا۔

تشریح:

اس حدیث میں درود شریف کی فضیلت کی گئی ہے۔ حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کا وجود مسعود ہم تمام انسانوں کے لیے باعث برکت اور سعادت مندی ہے۔ آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ ہی کی بدولت ہمیں دین اسلام کی پہچان ملی۔ درود شریف اور سلام اصل میں ایک تحفہ ہے، جس کو مسلمان اپنے رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں بھیجتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں کی جانے والی بہت اعلیٰ درجہ کی دعا ہے جو حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی ذات پاک سے اپنی ایمانی وابستگی اور محبت کے اظہار کے لیے آپ کے حق میں کی جاتی ہے۔ اس لیے ہم پر لازم ہے کہ ہم آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ سے بے انتہا محبت کریں، آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی سیرت اور سنت پر عمل کریں اور آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی بتائی ہوئی تعلیمات پر عمل کریں اور آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے حضور میں عقیدت و محبت اور وفاداری و نیازمندی کا نذرانہ پیش کریں اور آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے لیے کثرت سے ”درود شریف“ پڑھنے کا اہتمام کریں تاکہ ہمیں حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کا روحانی قرب حاصل ہو اور حضور کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی شفاعت کے بھی حقدار ہو جائیں۔

لا يُؤْمِنُ أحدُكم حتى أَكُونَ أَحَبَّ إليه مِن وَلَدِه، ووالِدِه، والناس أجمعين کی تشریح تحریر کریں۔

ترجمہ:

تم میں سے کسی کا بھی ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوگا جب تک کہ میں اس کی نظر میں اس س کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے پیار اور محبوب نہ ہو جاؤں۔

تشریح:

اس حدیث میں حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ سے محبت کو علامت ایمان بتایا گیا ہے۔ حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ سے محبت کرنے میں تمام اقسام کی محبتیں جو ماں باپ اور بیوی بچوں کی محبت کی طرح ہوتی ہیں، دوسرے طبعی اسباب یا نفسانی اسباب کی وجہ سے ہوتی ہیں سب شامل ہیں یعنی حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے ساتھ اختیاری محبت رکھ کر جب تک بندہ اپنی خواہشات، اپنی مرضی، اپنا مال، اولاد اور اپنی جان بھی اللہ تعالیٰ اور آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے احکامات کے سامنے قربان نہ کردے اس وقت تک وہ کامل ایمان والا نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اس باتکی توثیق آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی ایک اور حدیث سے بھی ہوتی ہے، جس میں آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں: ”تم میں سے کوئی (کامل) مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ اس کی خواہش اس شریعت کے تابع نہ ہو جائے جس کو میں لاکر آیا ہوں۔“ (شرح السنۃ للبغوی، ج۱،ص۲۱۲،۲۱۳)

(ب) مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:۔

۱۔ ذکر اللہ سے کیا مراد ہے؟ تحریر کریں۔

جواب:ذکر کے معنی یاد کرنا، زبان پر جاری کرنا، شہرت، ثناخوانی، دعا اور ورد وغیرہ ہیں، اور عارفوں کی اصطلاح میں ذکر، یاد کرنے، عمل پر ہوشیار، تحفظ، اطاعت، نماز اور قرآن پڑھنے وغیرہ کے معنی میں ایا ہے۔ ”ذکر اللہ“ اپنے وسیع معنی کے لحاظ سے نماز تلاوت قرآن اور دعا و استغفار سب کو شامل ہے۔لیکن مخصوص عرف و اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس، توحید وتمجید، اس کی عظمت و کبریائی اور اس کی صفات کمال کے بیان کرنے کو ”ذکر اللہ“ کہا جاتا ہے۔

۲۔ تکمیل ایمان کے چار اصول بیان کریں۔

جواب: اس حدیث مبارکہ میں تکمیل ایمان کے چار اصول بتان کر دیئے ہیں:
انسان کسی سے محبت کرے تو اللہ کے لیے۔
انسان کسی کو کچھ عطا کرے تو اللہ کے لیے۔
کسی سے بغض رکھے تو محض اللہ کے لیے۔
کسی کو عطا کرنے سے ہاتھ روک لے تو بھی محض اللہ کے لیے۔

۳۔ لاالہ الا للہ کو افضل ذکر کیوں کہا گیا ہے؟

جواب: لاالہ الا اللہ کا کلمہ صرف اکیلے اللہ تعالیٰ کو معبود ماننے کی تلقین کرتا ہے اس لیے اس کو ”کلمہ توحید اور کلمہ ایمان“ کہا جاتا ہے۔ تمام اذکار میں لا الہ الا اللہ کو افضل ذکر اس لیے کہاگیا ہے کہ یہ کلمات تمام صفات کمال کا جامع اور عظمت و کبریائی میں برترہی۔ باطن کی تطہیر اور قلب کو ہر طرف سے موڑ کر اللہ تعالیٰ سے وابستہ کرنے میں سب سے زیادہ موثر ہیں۔ نیز اس کو دل کے یقین اور سچائی کے ساتھ اقرار و اعتراف کرنے کے باعث آدمی اسلام میں داخل ہو جاتا ہے اور جنت میں داخل ہونے کا حق دار بن جاتا ہے۔

۴۔دعا سے کیا مراد ہے؟

جواب:”دعا“ کسی کم تر کا اپنے برتر سے کچھ مانگنا اور مانگنے پر اظہار عاجزی کرنا دعا کہلاتا ہے دعا سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قادر مطلق مانتے ہوئے اس کی بارگاہ میں التجا کرنا اور درخواست پیش کرنا۔ دعا حصول مقصد کا ایک وسیلہ ہے یعنی بندہ جس طرح اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کے لیے دوسری محنتیں اور کوششیں کرتا ہے اسی طرح کی ایک کوشش دعا بھی ہے۔