Advertisement

غزل

دل کشتہ فریب تمنا ہے آج بھی
اس کی نگاہ اک نئی دنیا ہے آج بھی
افسردگی عشق کو مدت ہوئی مگر
شعلہ سا کچھ دلوں سے لپکتا ہے آج بھی
گو بے حسی دل کو زم نہ کو گزر گیا
رہ رہ کے خار عشق کٹھکتا ہے آج بھی
نو میدیوں کی مدت دیرینہ پر نہ جا
اے چشم یار!تیرا بھروسا ہے آج بھی
اب بھی اچھل رہا ہے لہو سا فضا میں کچھ
دارو رسن پہ عشق کا قبضہ ہے آج بھی
اس پرششِ کرم پہ تو آنسؤں پڑے
کیا تو وہی خلوص سراپا ہے آج بھی
بدلے نگار خانہ ہستی نے لاکھ رنگ
انداز حسنِ یار نرالا ہے آج بھی
گو ہو چکا ہے خاتمہ گفت و شنید کا
دل بے قرار شکوہ بے چاہے آج بھی
اب وہ متاع درد ہو یا کیف یا نشاط
اس بزم میں خزانہ سا لٹتا ہے آج بھی
یوں تو فنا بقا کے منازل گزر چکے
دل ذکر عاشقی سے جھجکتا ہے آج بھی
سچ جھوٹ کی خبر تو کسے،لیکن اے فراقؔ
کوئی بیان درد سناتا ہے آج بھی

تشریح

دل کشتہ فریب تمنا ہے آج بھی
اس کی نگاہ اک نئی دنیا ہے آج بھی

شاعر کہتا ہے کہ میرا دل ہمیشہ آرزوں کے فریب میں آ جاتا ہے اور نہ جانے کیسے کیسے مصائب سے دوچار اسے ہونا پڑا ہے۔ آج بھی یہ تمنا کے فریب ہی کا مارا ہوا ہے۔ اس کی نظر میں ہمیشہ نئی نئی دنیا رہی ہے اور آج بھی ہے۔

افسردگی عشق کو مدت ہوئی مگر
شعلہ سا کچھ دلوں سے لپکتا ہے آج بھی

شاعر کہتا ہے کہ عشق کی آگ کو بجھے ایک زمانہ ہو گیا مگر اب بھی دلوں سے آتش عشق کا شعلہ بھڑک اُٹھتا ہے۔گویا اس آگ کی راکھ میں ابھی گرمی باقی ہے۔

گو بے حسی دل کو زم نہ کو گزر گیا
رہ رہ کے خار عشق کٹھکتا ہے آج بھی

اگرچہ دل بےجس ہو گیا ہے اور اس کی بے حسی کو ایک مُدت بھی گزر چکی ہے تاہم اب بھی رہ رہ کے دل میں عشق کا کانٹا چبھ جاتا ہے۔

نو میدیوں کی مدت دیرینہ پر نہ جا
اے چشم یار!تیرا بھروسا ہے آج بھی

شاعر کہتا ہے کہ گو ہمارا دل محبوب کی جانب سے ناامید ہو چکا ہے اور ایک مدت سے مایوس ہیں لیکن اے محبوب اس کی اس دیرینہ نا امیدی پر مت جا۔ اس کی نا امیدی کو مت دیکھ کہ اے محبوب اب بھی اسے تیری چشم کرم کا بھروسا ہے۔اسے یقین ہے کہ ایک دن یہ نگاہ ہم پر بھی کرم کرے گی۔

اس پرششِ کرم پہ تو آنسؤں پڑے
کیا تو وہی خلوص سراپا ہے آج بھی

شاعر کہتا ہے کہ اگرچہ محبوب سے بات چیت کرتے ہوئے دل ختم ہوچکا ہے لیکن آج بھی اس سے بے جا شکوے کے لئے دل بے قرار رہتا ہے۔

بدلے نگار خانہ ہستی نے لاکھ رنگ
انداز حسنِ یار نرالا ہے آج بھی

شاعر کہتا ہے کہ محبوب کی محفل میں آج بھی ڈھیروں دولت لُٹتی ہے۔چاہے دکھ درد کی دولت ہو یا پھر سرور اور خوشی کی دولت۔وہاں کسی کو سرور حاصل ہے تو کسی کو دُکھ تکلیف۔