Advertisement

غزل

دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے
زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
دل و دیدۂ اہل عالم میں گھر ہے
تمہارے لیے ہیں مکاں کیسے کیسے
غم و غصہ و رنج و اندوہ و حرماں
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے

تشریح

پہلا شعر

دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے

شاعر محبوب کے حُسن کا تذکرہ کر رہا ہے۔ اب دہن کا خوب صورت ہونا اس کی ایک علامت ہے۔ لہٰذا وہ کہتا ہے کہ محبوب کے منہ کو دیکھ کر نہ جانے کیا کیا گُمان دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ کبھی غنچہ دِکھائی دیتا ہے تو کبھی لعل کی مانند لگتا ہے۔گویا طرح طرح کے خیال آتے ہیں۔

Advertisement

دوسرا شعر

زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

شاعر کہتا ہے کہ یہ دنیا کیسے کیسے گُل کھلاتی ہے یعنی کیسے کیسے فساد کھڑے کرتی ہے اور یہ آسمان کیسے کیسے انقلاب لاتا ہے۔شعر کا حُسن رعایتِ لفظی اور تضاد میں ہے۔دنیا کو زمین چمن کہا ہے اور پھر گُل کِھلانا کا محاورہ استعمال کیا اور زمین و آسمان کے تضاد سے شعر میں خوبی پیدا ہوگئی ہے۔

تیسرا شعر

نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

فلک کی گردش سے کوئی بچ نہیں پایا۔بڑے بڑے لوگ ہوئے، مٹ گئے۔اب شاعر کہتا ہے کہ نہ سکندر کی کہیں قبر ہے اور نہ دارا کی تُربت کا کہیں نِشان ہے۔وہ مزید کہتا ہے کہ کتنے بڑے نامی لوگ تھے جن کے نام و نِشان زمانے کی گردش نے مِٹا دیے ہیں۔

چوتھا شعر

دل و دیدۂ اہل عالم میں گھر ہے
تمہارے لیے ہیں مکاں کیسے کیسے

اے محبوب تم اہل دنیا کے دلوں میں رہتے ہو۔ان کی نگا ہیں تمھارا گھر ہیں۔لوگ تمھیں اپنے دل میں رکھتے ہیں،اپنی آنکھوں میں تمھاری تصویر لیے پھرتا ہوں۔ لہٰذا تمھارے لیے کیسے کیسے بڑھیا مکان ہیں۔

پانچواں شعر

غم و غصہ و رنج و اندوہ و حرماں
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے

شاعر کہتا ہے کہ غم، غصّہ، تکلیف اور مایوسی و بد نصیبی ہی ہمارا مُقدر رہا ہے۔ اُنہی کے کرم ہم پر رہے ہیں۔لہذا وہ کہتا ہے کہ ہمارے بھی کیسے کیسے مہربان ہیں، دوست ہیں۔

Advertisement