Advertisement
دیے ہیں زخم اتنے زندگی نے
کہ کی خود کشی میری خوشی نے
مرے غم سے نہیں واقف تھا کوئی
کیا ظاہر ہے آنکھوں کی نمی نے
مری عادت نہیں ہے دور رہنا
مجھے بے گھر کیا ہے مفلسی نے
مرے زخموں پہ مرہم کون ملتا
دئے تھے زخم مجھکو آپ ہی نے
رہوں کس سے قریب اور دور کس سے
بتایا ہے مجھے یہ آگہی نے
کجی دیوار کی ڈھاتی ہے گھر کو
بتایا ہے گھروں کے مستری نے
کمی سانپوں کی دنیا میں نہیں ہے
ڈسا ہے آدمی کو آدمی نے
زمانے نے مجھے ٹھکرا دیا تھا
مجھے اپنا بنایا آپ ہی نے
دیار یار کے خاروں سے فیضان
لیا ہے حسن گل نے ہر کلی نے

Advertisement