ذرا سے ہم ہی بیکل ہو گئے ہیں

0
ذرا سے ہم ہی بیکل ہو گئے ہیں
سبھی غم ورنہ اوجھل ہو گئے ہیں
جہاں پیوند کاری کی تھی تو نے
وہ دل ویران جنگل ہو گئے ہیں
ہمارا مسئلہ ہی مسئلہ ہے
مسائل ساتھ کے حل ہو گئے ہیں
ترے گاؤں کے مردہ دل بسا کر
ہمارے شہر بوجھل ہو گئے ہیں
گئے حضرت اسے تبلیغ کرنے
جلے ایسے کہ کاجل ہو گئے ہیں
بڑی تاخیر سے ہم مسکرائے
کہا تھا اس نے پاگل ہو گئے ہیں
شجر کاری تری یادوں میں کی ہے
ہمارے پیڑ صندل ہو گئے ہیں
ترے کوچے سے گزرے تھے مسافر
سنا ہے پاؤں مخمل ہو گئے ہیں
میاں عمر