Advertisement
ذرا سے ہم ہی بیکل ہو گئے ہیں
سبھی غم ورنہ اوجھل ہو گئے ہیں
جہاں پیوند کاری کی تھی تو نے
وہ دل ویران جنگل ہو گئے ہیں
ہمارا مسئلہ ہی مسئلہ ہے
مسائل ساتھ کے حل ہو گئے ہیں
ترے گاؤں کے مردہ دل بسا کر
ہمارے شہر بوجھل ہو گئے ہیں
گئے حضرت اسے تبلیغ کرنے
جلے ایسے کہ کاجل ہو گئے ہیں
بڑی تاخیر سے ہم مسکرائے
کہا تھا اس نے پاگل ہو گئے ہیں
شجر کاری تری یادوں میں کی ہے
ہمارے پیڑ صندل ہو گئے ہیں
ترے کوچے سے گزرے تھے مسافر
سنا ہے پاؤں مخمل ہو گئے ہیں
میاں عمر

Advertisement