تعارفِ غزل :

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام حسرت موہانی ہے۔

تعارفِ شاعر :

حسرت موہانی کا اصل نام سید فضل الحسن تھا۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت امام علی موسی کاظم سے ملتا ہے۔ آپ حق گو ، بے باک اور درویش مزاج انسان تھے۔ آپ جدید اندازِ غزل کے شاعر تھے۔ آپ کو رئیس المتغزلین بھی کہا جاتا ہے۔ آپ نے ایک رسالہ اردو معلی کے نام سے جاری کیا تھا۔ آپ کا کلام کلیاتِ حسرت کے نام سے موجود ہے۔ نکاتِ سخن آپ کی مشہور کتاب ہے۔

رسمِ جفا کامیاب ، دیکھیے، کب تک رہے
حُبِ وطن، مستِ خواب، دیکھیے، کب تک رہے

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جس دور میں برصغیر پر انگریزوں نے قبضہ کر لیا تھا اس زمانے میں مسلمانوں کی حالت بہت بگڑی ہوئی تھی۔مسلمانوں کی صفیں بکھر چکیں تھیں۔ مسلمانوں پر انگریز اور ہندو دونوں ظلم و ستم کرتے تھے۔اس دور میں شاعر کا کلام مسلمانوں میں جذبہ بھرتا تھا وہ کہتے ہیں کہ سامراج کی کمزور حکومت کب تک بغاوت کچلے گی کبھی تو یہ قیود میں پڑے نوجوان اپنے حق کے لیے کھڑے ہونگے۔ کبھی تو مسلمانوں میں یہ جذبہ جاگے گا وہ غلامی کا طوق گلے سے نکال پھینکیں گے۔ وہ مسلمانوں کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں کہ اگر مسلمان متحد ہو کر انگریز کے خلاف بغاوت کر لیں تو یہ ظلم وستم کے بادل چھٹ سکتے ہیں۔

دل پہ رہا مدتوں غلبہء یاس و ہراس
قبضہء خرم و حجاب، دیکھئیے، کب تک رہے

تشریح

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ مسلمانوں پر جب انگریز نے قبضہ کر لیا تھا تو جنگ آزادی کی ناکامی مسلمانوں پر بڑی گراں گزری تھی۔ مسلمانوں نے دوبارہ اقتدار حاصل کرنا چاہا مگر وہ ناکام ہوئے نہ صرف ناکام باقاعدہ مایوس ہو گئے۔جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کے جان و مال محفوظ نہ رہے۔ مسلمانوں میں انگریزی کی غلامی کے ماحول میں شرم و جھجھک آگئی تھی وہ کہیں باہر نکلنے سے خوف کھاتے تھے۔ ان کے ذہن گرفتار ہو گئے تھے۔ شاعر کہتا ہے کہ اب مسلمانوں کو اس کیفیت سے نکل کر آگے بڑھنا ہوگا۔

تابہ کجا ہوں دراز سلسلہ ہائے فریب
ضبط کی، لوگوں میں تاب، دیکھئیے، کب تک رہے

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جب انگریز نے ہندوستان میں اپنی حکومت سنبھال لی تھی، پہلے پہل تو لوگوں نے مذحمت کی مگر پھر ناکامی پا کر لوگوں نے پس پائی اختیار کر لی اور اس ظلم و ستم کو اپنے اوپر جائز سمجھ لیا۔ انگریزوں نے بھی مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیئے۔ مگر شاعر کہتے ہیں کہ یہ ظلم و ستم کا دور کب تک لوگوں کی بیداری تک یہ غلامی کا دور چل سکتا ہے۔ مگر اگر لوگ اپنی آزادی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں تو یہ ظلم کا دور ختم ہو جائے گا۔جب لوگوں میں شعور آجائے گا وہ اپنے گلے سے طوق غلامی اتار پھینکیں گے۔

پردہء اصلاح میں کوششِ تخریب کا
خلقِ خدا پر عذاب، دیکھئیے، کب تک رہے

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ برصغیر میں انگریزوں نے جب قبضہ کر لیا تو دھیرے دھیرے انگریزوں نے حالات پر قابو پانے کے لیے مکرو فریب سے کام لیا۔ ہندوستان کے سادہ لوح لوگوں کو سامراج نے اپنے جال میں پھنسانا شروع کر دیا۔ کچھ لوگوں کو لالچ دے کر اپنا ماتحت بنا لیا اور باقی لوگوں کو فلاح و بہبود کے جھانسے میں کر لیا۔ یہاں سے جو بھی منافع ہوتا وہ لوٹ کر انگلستان چلا جاتا یہاں ترقی کے نام پر بس چند ایک پروگرام بنائے گئے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ انگریز کب تک یہاں کے لوگوں سے جھوٹ برل کر دھوکے میں رکھے گا کبھی نہ کبھی تو یہ لوگ بیدار ہو جائیں گے اور اس کا یہ کھیل ختم ہو جائے گا۔ وہ سب کو اس مکرو فریب کو پہچاننے کا کہتے ہیں کہ اپنے دشمن کو پہچانو اور اس کے ظلم و ستم سے جان چھڑواؤ۔

حسرتِ آزاد پر جورِ غلامانِ وقت
ازرہِ بُغض و عناد، دیکھئیے، کب تک رہے

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جب انگریز نے ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ دیئے، اس زمانے میں لوگ غلامی کی زندگی گزار رہے تھے۔ انھیں غلامی کی زنجیروں نے جکڑ رکھا تھا وہ اپنے حق کے لیے آواز بلند نہیں کر سکتے تھے۔ یہ ظلم و ستم وہ مقامی افسران کے ذریعے کرواتے تھے۔ مقامی افسران اپنے ہی لوگوں کو زندان میں ڈالتے تھے غیر ملکی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے کر رہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ یہ انگریز اپنے تھوڑے سے مفادات کے لیے ہم پر ظلم کرتے ہیں حالانکہ یہ ہماری غلامی اور یہ ان کی حکمرانی سدا کے لیے نہیں رہے گی۔ محبان وطن کبھی حوصلہ نہیں ہاریں گے۔ ایک دن ان کے ان جذبوں سے ہی یہ ملک آزاد ہوگا۔

سوال 1 : مختصر جواب دیں :

1 : دونوں غزلوں میں ردیف کی نشان دہی کریں۔

جواب : پہلی غزل کی ردیف “یاد آتے ہیں” ہے۔
دوسری غزل کی ردیف “دیکھیے کب تک رہے” ہے۔

2 : دونوں غزلوں میں کون کون سے قافیے استعمال ہوئے ہیں؟

جواب : پہلی غزل میں الفاظ ”برابر، کیونکر ، ساغر، اکثر، بڑھ کر“ بطور قافیہ استعمال کیے گئے ہیں۔
دوسری غزل میں الفاظ ”کامیاب، خواب، حجاب، تاب، عذاب، عتاب“ بطور قافیہ استعمال کیے گئے ہیں۔

3 : پہلی غزل کا مطلع لکھیں۔

بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
الٰہی ترک الفت پر وہ کیونکر یاد آتے ہیں

سوال 2 : درج ذیل اشعار میں اصطلاجی مفہوم کو مد نظر رکھتے ہوئے درست اصطلاحی (✓) کا نشان لگائیں :

۱ : بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
الہٰی ترک الفت پر وہ کیوں کر یاد آتے ہیں

  • ٭مطلع (✓)
  • ٭مقطع
  • ٭غزل کا پہلا شعر
  • ٭مطلع ثانی

۲ : “رسم جفا کامیاب دیکھیے کب تک رہے” میں “دیکھیے کب تک رہے” ہے۔

  • ٭مطلع
  • ٭مقطع
  • ٭قافیہ
  • ٭ردیف (✓)

۳ : “حسرتِ آزاد پر جور غلامان وقت” میں “حسرت” کیا ہے؟

٭قافیہ
٭ردیف
٭تخلص (✓)
٭مقطع

سوال 3 : مندرجہ ذیل الفاظ و تراکیب کی وضاحت کریں۔

حب وطن :وطن کی محبت
ترک الفت :محبت سے دستبردار ہونا
غلبۂ یاس و ہراس :مایوسی اور خوف کا غلبہ
تخریب :خرابی

سوال 4 : مندرجہ ذیل الفاظ کو اس طرح اپنے جملوں میں استعمال کریں کہ ان کی تذکیر و تانیث واضح ہو جائے :

خواب :میں نے اچھا خواب دیکھا۔
حجاب :اسلام میں عورتوں کو حجاب کرنا لازم قرار دیا گیا ہے۔
خبر :مجھے اس کی موت کی خبر ہوئی۔
جفا : ہمیں اپنے سے جڑے رشتوں سے جفا کرنی چاہیے۔
حب : حبِ الوطن شخص اپنے ملک کے لیے جان بھی دے سکتا ہے۔