رمضان اور پیشہ ورانہ اخلاقیات

0

پیشہ ورانہ اخلاقیات سے مراد ہے کہ کوئی بھی شخص خواہ وہ کسی بھی کام سے منسلک ہو، اس سے انصاف کرے اور دیانتداری کا مظاہرہ کرے۔ کوئی سرکاری ملازم ہے تو وہ اپنی متعلقہ حدود و قیود میں رہ کر اپنے فرائض منصبی کی بجا آوری کرے، کمی بیشی سر زد نہ ہونے دے۔ انہی اصولوں کا اطلاق ایک مزدور پر بھی ہوتا ہے۔ کوئی تاجر ہے تو وہ تجارت کے اصولوں کی پاسداری کرے ۔ کوئی پھل فروش ہے یا پھر سبزی فروش ، وہ دائیں دکھا کر بائیں مارنے والا کام نہ کرے، یعنی اچھی چیز دکھا کر بری چیز فروخت نہ کرے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ پیشہ ورانہ اخلاقیات کی پاسداری کر رہا ہے یا پھر وہ راہ راست پر چل رہا ہے۔ لیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ماہ رمضان کی آمد سے قبل ہی راہ راست پر چلتا ہوا مزدور، (پھل، سبزی فروش) دانستہ طور پر بھٹک جاتا ہے۔ انسان کی نیت میں فتور آ جانا کوئی نئی چیز نہیں ہے لیکن خود کو اس ہیجانی کیفیت سے نکال لینا ہی انسانیت ہے۔

رمضان کی آمد کے ساتھ ہی ایک ریڑھی بان خود کو ایسے سمجھنے لگ جاتا ہے جیسے وہ ایک عالی شان پلازے کا مالک ہے۔ اس کا رویہ اور رجحان یکسر بدل جاتا ہے۔ اس کے دل سے خوف خدا ناپید ہو جاتا ہے۔ برطانیہ میں ایسے تہواروں کے آنے پر اشیائے خوردو نوش کے نرخوں میں 50 فی صد سے بھی زیادہ کمی کر دی جاتی ہے۔ انگریز نہ ہی جھوٹ بول کر کوئی چیز فروخت کرتا ہے،  نہ ہی دھوکے سے کام لیتا ہے۔ انگریز باسی چیزوں کو تازہ بنا کر پیش نہیں کرتا۔ وہ مر تو سکتا ہے لیکن جھوٹ، دھوکہ، فریب، ملاوٹ اور غلط بیانی کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔ جبکہ ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ ہم آدمی تھے، آدمی رہیں گے اور آدمی کے روپ میں ہی مٹی تلے دب جائیں گےلیکن کبھی انسان نہیں بنیں گے۔ ہم سارا سال ہی حرام خوری سے کام لیتے ہیں لیکن ماہ رمضان آنے پر روزہ بھی رکھتے ہیں، نماز بھی پڑھتے ہیں، باسی سبزیاں اور پھل 400 فی صد تک حیران کن قیمت بڑھا کر بیچتے ہیں۔ کھجور اور کیلا سارا سال رینگتے ہوئے نظر آتے ہیں جبکہ رمضان میں ان دونوں (کھجور اور کیلا) کو پر لگ جاتے ہیں اور ہماری پکڑ میں نہیں آتے ہیں۔

آٹا ، نمک، دال، چاول، گھی، چینی اور مشروبات کے علاوہ دودھ اور دہی کے نرخ بھی کم و بیش 400 فی صد تک بڑھ جاتے ہیں۔ عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے جو رزق مقدر میں لکھا ہوتا ہے وہ خود انسان کے پیچھے چل کر آتا ہے۔ حرام خوری اور 2 نمبری سے کمایا ہوا پیسہ، مال و دولت کبھی آپ کا تھا اور نہ ہی کبھی آپ کا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یوٹیلٹی  اسٹورز کے مالکان و ملازمین سبسڈی والی تمام اشیاء صارفین کو فروخت کرنے کے بجائے پچھلے دروازے سے مافیا کے ساتھ ساز باز کر کے کروڑوں روپے کما لیتے ہیں۔ ہمارے ملک کی آبادی   تقریباََ 22 کروڑ ہےاور ملک بھر میں یوٹیلٹی اسٹورز کی تعداد 5491 ہے۔ ذرا سوچیں کس طرح ملک کے کروڑوں لوگوں کو سبسڈی سے فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ لیکن غریب عوام کے لئے ہر ایک چیز کو “شجر ممنوعہ” بنا دیا جاتا ہے۔ حرام خوری سے کام لینے والےجانتے بھی ہیں کہ وہ غلط راستے پر چل رہے ہیں اور خدا کے حضور میں انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا لیکن ڈھٹائی کی ساری حدیں پار کر کے “تجاہل عارفانہ” سے کام لیتے ہیں۔ 

ہم مذہب کے لحاظ سے تو اپنے ماتھوں پر ٹیکے سجا  سکتے ہیں لیکن انگریز کبھی بھی ہمیں اخلاقیات اور پیشہ ورانہ اخلاقیات میں خود سے آگے نہیں جانے دے گا، کیوں کہ وہ “سیر چشم” ہے اور ہمارے دل تو مال و دولت کی حوس سے بھرتے ہی نہیں ہیں ۔ ہمارا پیٹ بھر بھی جائے تو آنکھوں کی ازلی بھوک صاف نظر آ رہی ہوتی ہے۔ حیرانی ہوتی ہے کہ ایک طرف ہمارا دوزخ اور جنت پہ ایمان بھی ہے اور دوسری طرف خوف خدا ہے نہ ہی دوزخ کے سب سے نچلے گڑھے میں جانے کا ڈر۔ ہم جعل سازی، دھوکہ دہی، جھوٹ، فریب، حرام خوری، سود، رشوت، کرپشن، 2 نمبری سے پیسہ کمانے، حرام سے کمائی دولت سے اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے میں پوری دنیا سے آگے ہیں۔ جبکہ اخلاقیات اور پیشہ ورانہ اخلاقیات کے حوالے سے ذلالت اور رسوائی کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں۔ کوئی بھی قوم، معاشرہ، سوسائٹی، گروہ، لشکر قبیلہ، یا خاندان ایک مجموعی سوچ کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا، ہم لکیر کے فقیر تھے، ہیں اور قوی امکان ہے کہ تا دمِ مرگ، ہم لکیر کے فقیر ہی رہیں گے۔

ہم  حرام ، مکروفریب، جعل سازی اور جھوٹ سے کمائی ہوئی دولت سے ہی اپنے بچوں کی سکول، کالج کی فیس بھی دیں گے، ان کا پیٹ بھی بھریں گے، ان کا تن بھی ڈھانپیں گے، کل کلاں کو ان کی شادی اور جہیز کا سامان بھی خریدیں گے بلکہ کفن بھی انہی پیسوں سے خریدیں گے۔

تحریر امتیاز احمد، کالم نویس، افسانہ نگار
[email protected]