ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ ’’ تُو کیا ہے؟‘‘

0

غزل

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ ’’ تُو کیا ہے؟‘‘
تمہیں کہو، کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے؟
نہ شعلہ میں یہ کرشمہ، نہ برق میں یہ ادا
کوئی بتاؤ کہ وہ شوخ تند خُو کیا ہے؟
یہ رشک ہے، کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوفِ بد آموزیِ عدو کیا ہے؟
چپک رہا ہے بدن پر، لہو سے پیراہن
ہماری جیب کو اب حاجتِ رفو کیا ہے؟
جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جو اب راکھ جُستُجو کیا ہے؟
رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے؟
وہ چیز ،جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز
سوائے بادۂ گُلفام مشکبو ،کیا ہے؟
رہی نہ طاقتِ گفتار،اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے ،کہ آرزو کیا ہے؟
ہوا ہے شہ کا مصاحب،پھرے ہے اِتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے؟

تشریح

پہلا شعر

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ ’’ تُو کیا ہے؟‘‘
تمہیں کہو، کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے؟

محبوب عاشق کی ہر بات کھیل میں اڑاتا ہے اس کو طنزیہ طور کہتا ہے کہ تمہاری حقیقت کیا ہے،تو خود کو سمجھتا کیا ہے،تو کس ہوا میں ہے۔اب شاعر کہتا ہے کہ خُدارا تم ہی بتاؤ کہ یہ بھی کوئی بات کرنے کا سلیقہ ہے اور اس طرح تو ہین آمیز طرز گفتگو کیا تمہیں زیب دیتی ہے۔

دوسرا شعر

نہ شعلہ میں یہ کرشمہ، نہ برق میں یہ ادا
کوئی بتاؤ کہ وہ شوخ تند خُو کیا ہے؟

شاعر محبوب کی تندخوئی کے سبب سے اسے کبھی شعلہ کہتا ہے اور کبھی برق،لیکن وہ حیران ہے کہ نہ وہ کرشمہ شعلے میں ہے جو اس محبوب میں ہے اور نہ برق میں وہ ناز و ادا ہے۔ لہٰذا وہ پوچھتا ہے کہ کوئی مجھے بتائے کہ وہ اسے کیا کہے۔

تیسرا شعر

یہ رشک ہے، کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوفِ بد آموزیِ عدو کیا ہے؟

رقیب محبوب سے بات کرتا ہے ہے۔شاعر کہتا ہے کہ مجھے اس بات کا ڈر نہیں ہے کہ میرا رقیب یعنی دشمن میری چغلی کھائے گا اور میری طرف سے تجھ کو بدگُمان کر دے گا۔یعنی میرے خلاف تمہارا کان بھرے گا۔بلکہ مجھے رشک تو اس بات پر ہے کہ وہ تم سے بات کرتا ہے، ہم کلام ہوتا ہے۔

چوتھا شعر

چپک رہا ہے بدن پر، لہو سے پیراہن
ہماری جیب کو اب حاجتِ رفو کیا ہے؟

اس شعر میں بدن سے خون بہنے کا کوئی سبب بیان نہیں کیا ہے۔لڑکوں نے پتھر مار کر خون بہایا ہے،خود سر پھوڑ لیا ہے یا پھر خون کے آنسو رو رو کر۔یہ سب احتمال ہیں مگر تعین نہ کرنے سے شعر میں لطف پیدا ہوگیا ہے۔شاعر کہتا ہے کہ ہمارے گر بیان کو اب رفو کرنے کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ لہو کے سبب سے پیراہن اب خود بدن سے چپک گیا ہے۔

پانچواں شعر

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جو اب راکھ جُستُجو کیا ہے؟

عاشق سوز عشق سے جل گیا ہے۔اب معشوق اس کی راکھ کرید رہا ہے۔شاعر کہتا ہے کہ اے نادان اب راکھ کرید کر کیا تلاش کرتا ہے۔کہ جہاں جسم جل گیا ہے وہاں دل کیا بچ گیا ہوگا جو اس کی تلاش کرتا ہے۔

چھٹا شعر

رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے؟

شاعر کہتا ہے کہ ہم اس لہو کو لہو نہیں مانتے جو محض رگوں میں گردش کرتا ہے ،دوڑتا پھرتا ہے۔کہ یہ تو ہر کسی کے ہاں دوڑتا ہے۔اس میں کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ہم تو اس کو لہو مانتے ہیں جو آنسو بن کر آنکھ سے ٹپکتا ہے۔گویا جو خون بن کر نہ ٹپکے وہ عاشق کا لہو نہیں ہو سکتا اور اس کی کوئی وقعت نہیں۔

ساتواں شعر

وہ چیز ،جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز
سوائے بادۂ گُلفام مشکبو ،کیا ہے؟

شاعر کہتا ہے کہ ہمیں بہشت بہت عزیز ہے اور وہ محض اس لیے ہے کہ وہاں نہایت عُمدہ شراب ملے گی اور بہت زیادہ ملے گی۔اس کے علاوہ اور کیا چیز ہوسکتی ہے جس کے لئے ہمیں جنت اس قدر عزیز ہو۔

آٹھواں شعر

رہی نہ طاقتِ گفتار،اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے ،کہ آرزو کیا ہے؟

شاعر کہتا ہے کہ ایک تو ہم میں بات کرنے کی طاقت ہی نہیں رہی ہے۔عشق میں ہم اس قدر ضعیف ہو چکے ہیں کہ اب بات کرنے کی سکت باقی نہیں رہی ہے۔بالفرض اگر ہو بھی تو کس امید پر اپنی آرزو کا اظہار کریں۔کیونکہ نہ ہی اس نے ہماری کوئی آرزو پوری کی ہے اور نہ اس کی توقع ہی ہے کہ وہ ہماری کوئی آرزو پوری کرے گا۔

نواں شعر

ہوا ہے شہ کا مصاحب،پھرے ہے اِتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے؟

مقطع سے متعلق روایت مشہور ہے کہ ایک دن استاد شیخ ابراہیم ذوؔق پالکی میں بیٹھے جا رہے تھے کہ مرزا کی نظر پڑی۔اب اس سے مرزا کی معاصرانہ چشمک تھی۔مصرعہ ’’ہوا ہے شہہ کا مصائب پھرے ہے اتراتے‘‘پڑھ دیا۔ ذوؔق نے سن لیا اور بہادر شاہ ظفر سے شکایت کی۔ظفر نے غالب کو بلوایا اور مصرعہ سنا کر پوچھا آپ نے کون سی غزل کہی ہے۔ غالب نے پوری غزل سنائی اور مقطعے میں یہ مصرعہ شامل کردیا۔ اس میں شاعر نے کہا ہے کہ ذرا غالب کو ملاحظہ فرمایئے کہ بادشاہ کے مصائب بن کر کس طرح اترتے پھرتے ہیں۔