Back to: وقار احمد
Advertisement
Advertisement
فقط معلوم ہے اتنا کہ تیرے بن میں جی لوں گا مجھے چاہت نہیں تیری مجھے حاجت نہیں تیری میں وہ خوشبو نہیں جاناں جسے تم قید کر ڈالو میں وہ دریا نہیں جاناں جسے تم پار کر ڈالو میں شعلہ ہوں جسے تم نے نہ دیکھا ہے نہ جانا ہے تجھے لگتا ہے یہ شاید کہ میں پھر لوٹ آؤنگا تجھے لگتا ہے یہ شاید کہ پھر تجھ کو مناؤں گا مگر اے دل نشیں سن لے حقیقت آشنا ہوں میں مجھے معلوم ہے سب کچھ تری خوشبو جو آتی ہے کسے سیراب کرتی ہے نمی تیرے لبوں کی اب کسے پرآب کرتی ہے بہت افسوس ہوتا ہے کہ میں نے کیا نہیں کھویا تری جھوٹی محبت میں ترے جھوٹے فسانوں میں مگر ان مرحلوں سے جب میں گزرا ہوں تو جانا ہے کہ میری ذات بھی اپنی الگ پہچان رکھتی ہے یہ اپنی انکساری میں انا کی شان رکھتی ہے یہی ہے زیست کا حاصل جو میں نے کھو کے پایا ہے تو ہاں اے دل نشیں سن لے میں خود میں کھو کے جی لوں گا میں تجھ سے بھی زیادہ آپ اپنا ہو کے جی لوں گا مگر کیا سچ میں جی لوں گا!! |
Advertisement