زیست کا حاصل

0
فقط معلوم ہے اتنا
کہ تیرے بن میں جی لوں گا
مجھے چاہت نہیں تیری
مجھے حاجت نہیں تیری
میں وہ خوشبو نہیں جاناں
جسے تم قید کر ڈالو
میں وہ دریا نہیں جاناں
جسے تم پار کر ڈالو

میں شعلہ ہوں جسے تم نے
نہ دیکھا ہے نہ جانا ہے
تجھے لگتا ہے یہ شاید
کہ میں پھر لوٹ آؤنگا
تجھے لگتا ہے یہ شاید
کہ پھر تجھ کو مناؤں گا

مگر اے دل نشیں سن لے
حقیقت آشنا ہوں میں
مجھے معلوم ہے سب کچھ
تری خوشبو جو آتی ہے
کسے سیراب کرتی ہے
نمی تیرے لبوں کی اب
کسے پرآب کرتی ہے

بہت افسوس ہوتا ہے
کہ میں نے کیا نہیں کھویا
تری جھوٹی محبت میں
ترے جھوٹے فسانوں میں

مگر ان مرحلوں سے جب
میں گزرا ہوں تو جانا ہے
کہ میری ذات بھی اپنی
الگ پہچان رکھتی ہے
یہ اپنی انکساری میں
انا کی شان رکھتی ہے
یہی ہے زیست کا حاصل
جو میں نے کھو کے پایا ہے

تو ہاں اے دل نشیں سن لے
میں خود میں کھو کے جی لوں گا
میں تجھ سے بھی زیادہ آپ اپنا ہو کے جی لوں گا
مگر کیا سچ میں جی لوں گا!!
وقار احمد