Advertisement
Advertisement

سبق کا خلاصہ: پروفیسر از “شوکت تھانوی

سبق “پروفیسر” میں مصنف نے اس لفظ “پروفیسر” کے ارتقا و کردار پر روشنی ڈالی ہے کہ جس طرح جوہریوں کے لیے موتی اور ڈاکٹروں کے لیے بیماریوں کی اقسام ہوتی ہیں اسی طرح موجودہ دور میں پروفیسر کی اقسام سمجھنا مشکل ہے۔لفظ “پروفیسر” نے ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ایسی عالمگیر وسعت حاصل کی ہے کہ آج بغیر کسی جستجو کے دنیا کے ہر گوشے اور زندگی کے ہر شعبہ میں آپ کو پروفیسر ہی پروفیسر نظر آئیں گے۔

Advertisement

اب سمجھنا آپ کا کام ہے کہ وہ کس قسم کے پروفیسر ہیں۔ایک زمانہ تھا کہ پروفیسر علم اور تجربہ کی اُس مشین کو کہتے تھے جو تعلیمی کالجوں میں پالی جانی تھی، اور جس سے یہ کام لیا جاتا تھا کہ جاہلوں کو عالم بنایا جائے یا مختصر الفاظ میں بقول پنجابی احباب کے لکچر پلانے کی مشین کا نام پروفیسر ہوتا تھا۔

یہ انسانی شکل وصورت کی مشین جو کتابیں چاٹ چاٹ کر دیمک بھی نہیں بلکہ شاہ دیمک کہے جانے کی مستحق بن کر کالجوں میں پہلے رٹنے پھر رٹانے پہلے پڑھنے پھر پڑھانے اور پہلے خود سمجھنے اور پھر سمجھانے میں مصروف نظر آتی تھی۔جو آج بھی مقررہ وقت سے آگے نہیں بڑھی۔لیکن اب اس لفظ میں اتنی برکت ہے کہ پروفیسر حشرات الارض کی طرح سے ابلتے دکھائی دیتے ہیں۔اب سائن بورڈوں کی بجائے دیواروں پہ پروفیسر کا لفظ چپساں دکھتا ہے۔

Advertisement

جیسے پروفیسر بلاقی ، رام مورتی ،کے بی ڈیوک وغیرہ۔پروفیسر بلاقی کو علم سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔ بلکہ ان کی خاندانی روایات یہ ہیں کہ ان کے آدم سے ایں دم تک کسی نے پڑھنے لکھنے کی طرف توجہ نہیں کی رہ گئی ان کی پروفیسری۔ اس کو منجانب اللہ سمجھتے یا سمجھ لیجیے کہ مادر زاد ستم کے پروفیسر ہیں، آپ ان کو دیکھئے تو بڑے بڑے چھلے دار بال اور تاؤ دی ہوئی مائل بہ پرواز مونچھوں کے ساتھ ایک ڈیڑھ فٹ کا رول لئے ہوئے پردہ اُٹھتے ہی نظر آئیں گے اور آپ کے سامنے تعظیماً تھوڑا سا جھک کر اُس ڈیڑھ فٹ کی لکڑی کو اُٹھا کر ہوا میں ادھر اُدھر بے معنی جنبش دے کر فرما ئیں گے۔

Advertisement

یہ میجک دان ہے جس کو جادو کی لکڑی کہتے ہیں اس میں کہیں پر کوئی خول نہیں ہے۔ میں اس کو آپ کے سامنے میز سے بجاتا ہوں’ دیکھئے یہ بالکل ٹھوس ہے آپ میں سے کوئی صاحب اس کو لے کر دیکھ سکتے ہیں اور یہ لکڑی کے تین ہال یعنی گیند ہیں، ایک دو تین۔ بس تین ہی ہیں، نہ ایک زیادہ نہ ایک کم میں اس جادو کی لکڑی سے ان تینوں گیندوں کو چھو کر اس خالی ڈبہ میں ڈالتا ہوں۔ دیکھئے یہ ڈبہ خالی ہے اس میں کوئی پردہ نہیں۔

ایک دو تین۔ یہ تینوں گیند اس ڈبہ میں پہنچ گئے ۔ اب میں اس جادو کی لکڑی کو اس ڈبہ پر پھیرتا ہوں ۔ ایک دو تین ۔ ہاتھ کی صفائی ہے نہ جادو ہے نہ نظر کا پھیر آپ کو معلوم ہے کہ میں نے تین گیند اس ڈبہ میں ڈالے تھے دیکھئے میں نکالتا ہوں۔ ارے یہ تو کبوتر نکل آئے۔پروفیسر رام مورتی دو موٹروں کو کان پکڑ کے روک لیتا تھا اور ہاتھی کو اپنے سینہ پر اس طرح کھڑا کر لیتا تھا جس طرح ہم یا آپ بچوں کو کھلاتے ہیں۔پروفیسری کا دروازہ ہر ایک کے لیے کھلا ہوا ہے۔

Advertisement

جب سب خود کو پروفیسر کہتے ہی ہیں تو ایسے صاحبان کمال اپنے کو پروفیسر کیوں نہ کہیں، سرکسوں میں جانوروں کو سدھانے والے کالجوں میں پڑھانے والے پروفیسروں سے زیادہ پروفیسر کہلانے کے مستحق ہیں۔ کالجوں کے پروفیسر تو صرف لڑکوں کو یعنی انسانوں کے بچوں کو سدھاتے ہیں مگر یہ سرکسی پروفیسر تو بندر کو سلام کرنا’ بکرے کو کرسی پر بیٹھنا کتے کو چشمہ لگانا’ ہاتھی کو سونڈ سے سگریٹ پینا حد تو یہ ہے کہ گدھے تک کو ناچنا سکھاتے ہیں۔

اب بتائیے یہ کیونکر پر و فیسر کہلانے کے مستحق نہیں پروفیسر ہوئے قصہ در اصل یہ ہے کہ ہر وہ شخص جس کو کسی مخصوص کام میں کوئی خصوصیت حاصل ہو وہی اپنے کو پروفیسر کہنے کا قانونا نہ سہی مگر اصطلاحاً حق دار ضرور بن جاتا ہے۔لوگ کسی شغل میں کمال کر کے پروفیسری کا دم چھلا اپنے اسم مبارک کے ساتھ لگا لیتے ہیں۔جبکہ بعض نےتو لفظ پروفیسر کو اپنے نام ہی کا نہیں بلکہ اپنے دستخط کا بھی جزو بنا لیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل لفظ ماسٹر کی درگت بن گئی تھی اور اب لفظ پروفیسر کی باری ہے۔اب عنقریب وہ طوفان آنے والا ہے کہ ہم اپنے گردو پیش پروفیسر ہی پروفیسر دیکھیں گئے اور اس وقت کالجوں کے پروفیسر ذرا گھبرائیں گے کہ اب اپنے کو کیا سمجھیں اور دنیا سے کیا کہلوائیں حالانکہ یہ سوال ابھی سے حل کرنے کے قابل بنا ہوا ہے اور اس کی اصلاح کی ضرورت کل کی طرح آج بھی ہے۔

  • مشق:

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات تحریر کیجیے:۔

لفظ پروفیسر نے کس طرح وسعت حاصل کی ہے؟

لفظ “پروفیسر” نے ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ایسی عالمگیر وسعت حاصل کی ہے کہ آج بغیر کسی جستجو کے دنیا کے ہر گوشے اور زندگی کے ہر شعبہ میں آپ کو پروفیسر ہی پروفیسر نظر آئیں گے۔ اب سمجھنا آپ کا کام ہے کہ وہ کس قسم کے پروفیسر ہیں۔

پہلے زمانے میں پروفیسر کسے کہتے تھے اور اس سے کس قسم کا کام لیا جاتا تھا؟

ایک زمانہ تھا کہ پروفیسر علم اور تجربہ کی اُس مشین کو کہتے تھے جو تعلیمی کالجوں میں پالی جانی تھی، اور جس سے یہ کام لیا جاتا تھا کہ جاہلوں کو عالم بنایا جائے یا مختصر الفاظ میں بقول پنجابی احباب کے لکچر پلانے کی مشین کا نام پروفیسر ہوتا تھا۔ یہ انسانی شکل وصورت کی مشین جو کتابیں چاٹ چاٹ کر دیمک بھی نہیں بلکہ شاہ دیمک کہے جانے کی مستحق بن کر کالجوں میں پہلے رٹنے پھر رٹانے پہلے پڑھنے پھر پڑھانے اور پہلے خود سمجھنے اور پھر سمجھانے میں مصروف نظر آتی تھی۔جو آج بھی مقررہ وقت سے آگے نہیں بڑھی۔

Advertisement

پروفیسر بلاقی کس قسم کے پروفیسر ہیں؟

پروفیسر بلاقی کو علم سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔ بلکہ ان کی خاندانی روایات یہ ہیں کہ ان کے آدم سے ایں دم تک کسی نے پڑھنے لکھنے کی طرف توجہ نہیں کی رہ گئی ان کی پروفیسری۔ اس کو منجانب اللہ سمجھتے یا سمجھ لیجیے کہ مادر زاد ستم کے پروفیسر ہیں، آپ ان کو دیکھئے تو بڑے بڑے چھلے دار بال اور تاؤ دی ہوئی مائل بہ پرواز مونچھوں کے ساتھ ایک ڈیڑھ فٹ کا رول لئے ہوئے پردہ اُٹھتے ہی نظر آئیں گے اور آپ کے سامنے تعظیماً تھوڑا سا جھک کر اُس ڈیڑھ فٹ کی لکڑی کو اُٹھا کر ہوا میں ادھر اُدھر بے معنی جنبش دے کر فرما ئیں گے۔ یہ میجک دان ہے جس کو جادو کی لکڑی کہتے ہیں اس میں کہیں پر کوئی خول نہیں ہے۔ میں اس کو آپ کے سامنے میز سے بجاتا ہوں’ دیکھئے یہ بالکل ٹھوس ہے آپ میں سے کوئی صاحب اس کو لے کر دیکھ سکتے ہیں اور یہ لکڑی کے تین ہال یعنی گیند ہیں، ایک دو تین۔ بس تین ہی ہیں، نہ ایک زیادہ نہ ایک کم میں اس جادو کی لکڑی سے ان تینوں گیندوں کو چھو کر اس خالی ڈبہ میں ڈالتا ہوں۔ دیکھئے یہ ڈبہ خالی ہے اس میں کوئی پردہ نہیں۔ ایک دو تین۔ یہ تینوں گیند اس ڈبہ میں پہنچ گئے۔ اب میں اس جادو کی لکڑی کو اس ڈبہ پر پھیرتا ہوں ۔ ایک دو تین ۔ ہاتھ کی صفائی ہے نہ جادو ہے نہ نظر کا پھیر آپ کو معلوم ہے کہ میں نے تین گیند اس ڈبہ میں ڈالے تھے دیکھئے میں نکالتا ہوں۔ ارے یہ تو کبوتر نکل آئے۔

پروفیسر رام مورتی کس چیز کے ماہر ہیں؟

پروفیسر رام مورتی دو موٹروں کو کان پکڑ کے روک لیتا تھا اور ہاتھی کو اپنے سینہ پر اس طرح کھڑا کر لیتا تھا جس طرح ہم یا آپ بچوں کو کھلاتے ہیں۔

سرکس میں جانوروں کو سدھانے والے کالجوں میں پڑھانے والوں سے زیادہ پروفیسر کہلانے کے مستحق کیوں ہیں؟

ایسے صاحبان کمال اپنے کو پروفیسر کیوں نہ کہیں، سرکسوں میں جانوروں کو سدھانے والے کالجوں میں پڑھانے والے پروفیسروں سے زیادہ پروفیسر کہلانے کے مستحق ہیں۔ کالجوں کے پروفیسر تو صرف لڑکوں کو یعنی انسانوں کے بچوں کو سدھاتے ہیں مگر یہ سرکسی پروفیسر تو بندر کو سلام کرنا’ بکرے کو کرسی پر بیٹھنا کتے کو چشمہ لگانا’ ہاتھی کو سونڈ سے سگریٹ پینا حد تو یہ ہے کہ گدھے تک کو ناچنا سکھاتے ہیں۔ اب بتائیے یہ کیونکر پر و فیسر کہلانے کے مستحق نہیں پروفیسر ہوئے قصہ در اصل یہ ہے کہ ہر وہ شخص جس کو کسی مخصوص کام میں کوئی خصوصیت حاصل ہو وہی اپنے کو پروفیسر کہنے کا قانونا نہ سہی مگر اصطلاحاً حق دار ضرور بن جاتا ہے۔

Advertisement

کسی نام کے ساتھ لفظ پروفیسر لگا دیکھ کر کیا سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے؟

کسی کے نام کے ساتھ لفظ پروفیسر لگا ہوا دیکھ کر یہ بات سمجھ میں ذرا مشکل سے آتی ہے کہ یہ حضرت سرکس میں تماشہ کرتے ہیں یا ان کو کسی کالج میں طالب علموں سے سرکھپانا پڑتا ہے یا جنگلی جانوروں کو سدھاتے ہیں یہ پروفیسر صاحب تاریخ یا جغرافیہ کے متجر عالم ہیں یا تان سین کے ارشد تلامذہ میں سے بہر حال اب اس عمومیت کے ماتحت اب یہ بات تو ہم دیکھ ہی رہے ہیں کہ جو بیچ بیچ کے پروفیسر ہیں وہ اپنی پروفیسری کو اچھالنے سےذرا پر ہیز کرتے ہیں کہ مبادا ان کو دنیا مداری سمجھ لئے یا گویا۔

عنقریب کون سا طوفان آنے والا ہے؟

اب عنقریب وہ طوفان آنے والا ہے کہ ہم اپنے گردو پیش پروفیسر ہی پروفیسر دیکھیں گئے اور اس وقت کالجوں کے پروفیسر ذرا گھبرائیں گے کہ اب اپنے کو کیا سمجھیں اور دنیا سے کیا کہلوائیں حالانکہ یہ سوال ابھی سے حل کرنے کے قابل بنا ہوا ہے اور اس کی اصلاح کی ضرورت کل کی طرح آج بھی ہے۔

مندرجہ ذیل الفاظ کے معانی لغت میں تلاش کیجیے:۔

الفاظمعانی
اجرام فلکیآسمانی اجسام/ سورج چاند ستارے
امتدادِ زمانہزیادہ عرصہ گزر جانا
مبحثموضوعِ بحث
منجانب اللہاللہ کی جانب سے
معجز نمائی معجزہ ہونا
جاہلمطلق بالکل جاہل
کندهنا تراش بے سلیقہ / غیر مہذب
اصطلاحاًروزمرہ کے مطابق رائج
تلامذہتلمیذ کی جمع / طالبِ علم
مباداخدا نخواستہ

مندرجہ ذیل الفاظ و محاورات کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے:

خم ٹھونک کر پروفیسر نے خم ٹھونک کر پروگرام کا آغاز کیا۔
محو حیرتمحو حیرت ہوں کہ سائنس دن بدن اتنی ترقی کرتی جا رہی ہے۔
خاندانی روایاتانسان کو ہمیشہ اپنی خاندانی روایات کا پاس رکھنا چاہیے۔
دم چھلاعلی ہمیشہ احمد کا دم چھلا بنا پھرتا ہے۔
سچ مچپروگرام کے دوران سچ مچ کا شیر سٹیج پر آگیا۔
درگت بننااحمد کی اس ماں کے ہاتھوں درگت بنی۔
قلم اُٹھاناصحافیوں کا فرض ہے کہ وہ عوام کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کے خلاف قلم اٹھائے۔

مندرجہ ذیل جملوں کو الفاظ کی ترتیب درست کر کے تحریر کیجے۔

جانے اس لفظ برکت آگئی ہے پروفیسر میں کہاں کی خداخدا جانے اس لفظ پروفیسر میں کہاں کی برکت آگئی ہے۔
اپنے حیرت انگیز حیرت بنائیں گے کام سے ناظرین کو محو پروفیسر بلاقیپروفیسر بلاقی اپنے حیرت انگیز کام سے ناظرین کو محو حیرت بنائیں گے۔
یہ ہے جس کو کہتے ہیں جادو کی لکڑی میجک وانیہ میجک وان ہے جس کو جادو کی لکڑی کہتے ہیں۔
انسانوں کے بچوں پروفیسر تو صرف لڑکوں کو یعنی کو سدھاتے ہیں کالج کےکالج کے پروفیسر تو صرف لڑکوں کو یعنی انسانوں کے بچوں کو سدھاتے ہیں۔
دم چھلا لوگ میں کمال کر کے پروفیسری کسی شغل کا اپنے کے ساتھ لگا لیتے ہیں اسم مبارکلوگ کسی شغل میں کمال کر کے پروفیسری کا دم چھلا اپنے اسم مبارک کے ساتھ لگا لیتے ہیں۔
تو لفظ پروفیسر دستخط کا بھی جزو کو اپنے نام ہی کا نہیں بلکہ اپنے بنا لیا ہے انہوں نےلفظ پروفیسر کو اپنے نام ہی کا نہیں بلکہ اپنے دستخط کا بھی جزو بنا لیا ہے۔

مندرجہ ذیل الفاظ کی مدد سے نیچے دیے گئے جملوں کو ملا کر لکھیے۔

  • جو ، جسے ، جس نے ، یا ، جوں ہی ، وہی
یہ وہی گھر ہے ۔ کل دیکھا تھا۔یہ وہی گھر ہے جسے کل دیکھا تھا۔
نہیں محتاج زیور کا۔ خوبی خدا نے دی۔نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی۔
ہمت کی۔ منزل پالی۔ہمت کی وہی منزل پالی
کیا آپ میرے گھر آئیں گے۔ کیا میں آپ کے گھر آ جاؤں۔کیا آپ میرے گھر آئیں گے یا کیا میں آپ کے گھر آ جاؤں۔
دنیا میں کامیاب ہوتے ہیں۔ محنت کرتے ہیں۔جو محنت کرتے ہیں وہی دنیا میں کامیاب ہوتے ہیں۔
خدا جسے توفیق دے۔ آسانی کے ساتھ پروفیسر بن جاتا ہے۔خدا جسے توفیق دے وہی آسانی کے ساتھ پروفیسر بن جاتا ہے۔

واحد کے جمع تحریر کیجیے۔

واحدجمع
قدماقدام
ثابتاثبات
قصہقصوں
ماہرماہرین
اسماسماء
شغلمشاغل
نتیجہنتائج
شکشکوک

ذیل میں دیے گئے خاکے میں لکھے ہوئے حروف کو جوڑ کر کم از کم دس الفاظ بنائیے ہر لفظ کم از کم چار حروف پر مشتمل ہونا چاہیے۔

ن ، م ، الف ، ل ، ر، ی ، س

Advertisement
نمل ، راس ، نال ، ریل ، سال ،سیر ، مسل ، سیل ، اسما ، نیلم ، نسل ، اسلم ، سیلر ،

مندرجہ ذیل انگریزی جملوں کا اردو میں بامحاورہ ترجمہ کیجیے۔

  • The children were fascinated by the toys in the shop window.
  • بچے دکان کی کھڑکی میں کھلونے دیکھ کر مسحور ہو گئے۔
  • We all felt the earthquake tremors.
  • ہم سب نے زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے۔
  • The party was in full swing when we arrived.
  • جب ہم پہنچے تو پارٹی زوروں پر تھی۔
  • She got a shock when she saw the telephone bill.
  • ٹیلی فون کا بل دیکھ کر اسے ایک جھٹکا لگا۔
  • I don’t believe in ghosts.
  • میں بھوتوں پر یقین نہیں رکھتا۔

Advertisement

Advertisement