سید سلمان ندوی کی تحقیق نگاری | Syed Sulaiman Nadvi Introduction in Urdu

0

سید سلمان ندوی مشہور عالم ہیں، مذہبیات کے ساتھ ہی ساتھ ادبی تحقیق سے بھی ان کو شغف ہے۔ ان کی مشہورکتاب “خیام” سمجھی جاتی ہے لیکن اس میں تنقید کا پہلو نام کو نہیں ملتا شاید تحقیق کی دھن میں انہوں نے تنقید سے چشم پوشی اختیار کرلی ہے۔ البتہ ان کے چند مقدمات اور مضامین ایسے ضرور ہیں جن سے ان کے تنقیدی خیالات کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ تنقیدی مضامین مختلف رسائل جیسے ‘معیاری’ اور ‘ہندوستانی’ وغیرہ میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے ہیں اور 1939ء میں دارالمصنفین اعظم گڑھ نے “نقش سلیمانی” کے نام سے انہیں یکجا کرکے شائع کردیا ہے اور ان مضامین اور مقدمات میں سے اکبر کا ظریفانہ کلام، ہاشم علی کا مجموعہ مراثی، مکاتیب شبلی، مکاتیب مہدی، کلام شاد، کلیات عشق، شعلہ طور، خمستان، مسدس حالی، خیابان، اتر سخن وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان میں ان کے تنقیدی خیالات ملتے ہیں۔

مولانا سید سلمان ندوی نے کوئی مضمون ایسا نہیں لکھا جس میں تنقیدی نظریات کی بحث ہو۔ صرف دو ایک مضامین میں چند اشارے کر دیتے ہیں جن سے ان کے تنقیدی خیالات کا اندازہ ہوتا ہے۔ لیکن اس میں بھی خاصی مشکل ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنی عملی زندگی میں کسی خاص اصولوں کو پیش نظر نہیں رکھتے، برخلاف اس کے جو خصوصیات ان کے ذہن میں آتی ہیں وہ ان کو بیان کر دیتے ہیں اور بس!۔

انہوں نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ وہ تنقید میں اپنے استاد شبلیؔ کے نقش قدم پر چلیں اسی وجہ سے ان کے تنقیدی نظریات بھی شبلی ہی کہ اثرات کا نتیجہ ہیں۔وہ شبلی کی طرح شاعری کو جذبات و تاثرات کا مجموعہ سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں شاعری کی صحیح تعریف یہ ہے کہ “وہ لفظوں میں شاعری کے جذبات اور تاثرات کی تصویر ہے اور جذبات و تاثرات صرف ذاتی واردات ہو سکتے ہیں اور نقالی اور اخذ سرقہ سے ادا نہیں ہو سکتے۔ یہ ہار سچے موتیوں سے تیار ہوتا ہے جھوٹے موتی اس کے لئے بیکار ہیں”

ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک شاعری ایسے جذبات و احساسات کا مجموعہ ہے جن میں خلوص ہو، سچائی ہو، اصلیت اور حقیقت ہو۔ شاعری کے متعلق یہ خیالات براہ راست عہد تغیر کی تنقید کے اثرات کا نتیجہ ہے۔

مولانا سید سلمان ندوی شعرو ادب میں ماحول کے اثرات کی اہمیت سے واقف ہیں۔ انہیں اس بات کا احساس ہے کہ ہر زمانے کے حالات ہی اس زمانے کے ادب کی تشکیل کرتے ہیں۔ سماجی زندگی میں جو کیفیت ہوتی ہے، حالات جو کروٹ لیتے ہیں اس کی جھلک براہ راست یا بالواسطہ طور پر ادب اور شعر میں نمایاں ہوتی ہے۔ لکھتے ہیں:

“یہ عجیب بدنصیبی ہے کہ ہماری شاعری کی پیدائش اس وقت ہوئی جب قوم پر مردنی چھائی ہوئی تھی۔ اس کی اپنی قوتیں ٹھنڈی تھیں اور یاس و نامیدی اس کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے تھی۔ ایسی قوم کے دل و دماغ میں قومی اشتعال، واقعیت کی قوت، مقصد کی بلندی اور عزم وہمت کا جوہر بھی پیدا نہیں ہوسکتا۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ فردوسی نے محمود کو پیدا کیا، میں سمجھتا ہوں کہ محمود نے فردوسی کو پیدا کیا۔ اگر محمود کی تلوار ہنگامہ آفرین عہد پیدا نہ کرتی تو رستم و سہراب اور کیکاؤس وغیرہ کے بوسیدہ ڈھانچوں میں یہ جان نہیں پڑتی اور نہ رزم و جنگ کی یہ مہیب تلواروں کی جھنکار اور داد شجاعت کے یہ افسانے فردوسی کی زبان و قلم سے ادا ہو سکتے تھے۔”

اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے خیال میں ماحول اور حالات و واقعات سے ادب اثر قبول کرتا ہے اور اس کے تمام شعبے سماجی حالات کے سانچے میں ڈھلتے ہیں۔ لیکن وہ اپنی تحریروں میں اس بات پر زور کم ہی دیتے ہیں کہ شعر و ادب بھی ماحول میں تبدیلی پیدا کرسکتے ہیں۔ وہ شعروادب کے مقصدی ہونے کے قائل تو ضرور ہیں لیکن ان کو انقلاب و ارتقاء کی منزل تک پہنچانے کے خیال سے ان کی تنقید پر چلتے ہیں۔

سید سلمان ندوی کی عملی تنقید کو دیکھنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ شاعری کی خصوصیات تو بیان کر دیتے ہیں لیکن اس سلسلے میں محض اصولوں سے کام نہیں لیتے، اسی وجہ سے کوئی معقول تجزیہ ان کے یہاں نہیں ملتا۔ خصوصیات کو گنانے کے بعد نقاد کے لیے یہ بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ ان خصوصیات کے محرکات کو بھی سامنے لائے، ورنہ اس کا معقول تجزیہ نہیں کر سکتا۔

سید سلمان ندوی اکبر کی ظریفانہ شاعری پر بحث کرتے ہوئے اس کی تمام خصوصیات کا ذکر کرتے ہیں لیکن اس پر قلم نہیں اٹھاتے کہ کن حالات کے ماتحت ظرافت اکبر کے کلام پیدا ہوئی۔ مسدس حالی کا ذکر کرتے ہوئے وہ ان تمام باتوں کو پیش کرتے ہیں جو مسدس میں موجود ہیں لیکن مسدس کو کن حالات نے پیدا کیا، آیا وہ اپنے وقت کی پیداوار ہے یا نہیں، اس کا ذکر وہ مطلق نہیں کرتے۔ اگر کہیں ان کی تنقید میں یہ خصوصیت پیدا بھی ہوتی ہے تو اشاروں کی صورت میں۔

تنقید کی مشرقی اصطلاحات سے وہ اپنی تنقیدی تحریروں میں ضرور کام لیتے ہیں۔ فصاحت و بلاغت، تشبیہات و استعارات، لطافت و روانی،بےساختگی، عآمد، آوارد، جدت ادا غرض یہ کہ اس قسم کی تمام اصطلاحات ان کی تنقید میں ملتی ہے۔ کہیں کہیں انہوں نے سادگی اور جوش بیان وغیرہ اصطلاحات سے بھی کام لیا ہے۔ جس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ وہ بھی عہد تغیر کی تنقید سے متاثر ہیں۔