سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا

0

غزل

سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا
بس ہجوم یاس! جی گھبرا گیا
تجھ سے کچھ دیکھا نہ ہم نے جُز جفا
پر،وہ کیا کچھ ہے کہ جی کو بھا گیا
کھل نہیں سکتی ہیں اب آنکھیں مری
جی میں یہ کس کا تصّور آگیا
میں تو ظاہر نہ کی تھی جی کی بات
پر مری نظروں کے ڈھب سے پا گیا
پی گئی کتنوں کا لوہو تیری یاد
غم تیرا کتنے کلیجے کھا گیا

تشریح

پہلا شعر

سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا
بس ہجوم یاس! جی گھبرا گیا

شاعر کہتا ہے کہ میرا سینہ اور دل نا امیدیوں سے بھر گیا ہے۔ اب وہ ناامیدی کے ہجوم کو خطاب کر کے کہتا ہے کہ بس اب برداشت نہیں ہو سکتا۔ میرا دل اب گھبرا گیا ہے۔

دوسرا شعر

تجھ سے کچھ دیکھا نہ ہم نے جُز جفا
پر،وہ کیا کچھ ہے کہ جی کو بھا گیا

محبوب سے مخاطب ہو کر شاعر کہتا ہے کہ تو صرف ظلم کرتا ہے اور ظلم تو کبھی اچھا نہیں لگتا۔چوں کہ تو بہت پیارا لگتا ہے تو آخر وہ تمہاری کون سی ادا ہے جو دل کو بھلی لگ گئی ہے۔

تیسرا شعر

کھل نہیں سکتی ہیں اب آنکھیں مری
جی میں یہ کس کا تصّور آگیا

جب خیالوں میں کسی کی تصویر بنانا ہو تو آنکھیں بند کرنا پڑتی ہیں کہ جیسے ہی آنکھیں کھلی وہ تصّور ٹوٹ گیا۔اب شاعر کہتا ہے کہ نہ جانے کس کا تصور دل میں آگیا ہے جو اتنا عزیز لگتا ہے کہ آنکھیں کھلنے سے رہ گئی ہیں۔ گویا محبوب کا تصور ہے کہ جو عاشق کو بہت عزیز ہوتا ہے۔

چوتھا شعر

میں تو ظاہر نہ کی تھی جی کی بات
پر مری نظروں کے ڈھب سے پا گیا

شاعر کہتا ہے میں نے تو اپنے دل کی بات راز ہی میں رکھی تھی۔ اس پر ظاہر نہیں کی تھی۔ لیکن محبوب میری نظروں کے انداز سے سمجھ گیا کہ میں اس کی محبت میں گرفتار ہو گیا ہوں۔

پانچواں شعر

پی گئی کتنوں کا لوہو تیری یاد
غم تیرا کتنے کلیجے کھا گیا

شاعر محبوب سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہے کہ اے محبوب نہ جانے کتنے ہی لوگ تمہاری یاد میں مرتے ہیں اور نہ جانے کتنے ہی لوگوں کے کلیجے تمہارے غم نے کھا لیے ہیں۔یعنی تمہارے غم میں کتنے ہی لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔