آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم

0

غزل

ہم ہیں مجروح ماجرا ہے یہ
وہ نمک چھڑکے ہے، مزہ ہے یہ
آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
اب جو ہیں خاک، انتہا ہے یہ
شکر اس کی جفا کا ہو نہ سکا
دل سے اپنے، ہمیں گلا ہے یہ
بودِ آدم نمودِشبنم ہے
ایک دو دم میں پھر ہوا ہے یہ
ہے رے بے گانگی،کبھو ان نے
نہ کہا یہ، کہ آشنا ہے یہ
مؔیر کو کیوں نہ مغتنم جانیں؟
اگلے لوگوں میں اک رہا ہے یہ

تشریح

پہلا شعر

ہم ہیں مجروح ماجرا ہے یہ
وہ نمک چھڑکے ہے، مزہ ہے یہ

شاعر کہتا ہے کہ واقعہ یہ ہے کہ ہم زخمی ہیں اور اس پر لطف یہ ہے کہ وہ یعنی محبوب ان زخموں پر نمک چھڑک رہا ہے۔ گویا تکلیف میں مزید شدّت پیدا کر رہا ہے۔

دوسرا شعر

آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
اب جو ہیں خاک، انتہا ہے یہ

شاعر کہتا ہے کہ عشق کی ابتدا میں ہم آگ تھے یعنی بہت جوش و خروش تھا۔لیکن دھیرے دھیرے وہ جوش، وہ گرمی ٹھنڈی ہوتی گئی اور اب انتہاء یہ ہے کہ خاک کے برابر ہوگئے ہیں۔گویا تباہ ہوگئے ہیں۔

تیسرا شعر

شکر اس کی جفا کا ہو نہ سکا
دل سے اپنے، ہمیں گلا ہے یہ

شاعر کہتا ہے کہ ہمیں اس بات کا گلہ نہیں ہے کہ محبوب نے ہم پر ظلم روا رکھا ہے۔ہمیں شکایت اپنے دل سے ہے کہ محبوب کی جفا کا شکریہ ادا نہیں کر سکا۔

چوتھا شعر

بودِ آدم نمودِشبنم ہے
ایک دو دم میں پھر ہوا ہے یہ

شاعر کہتا ہے کہ انسان کا اس دنیا میں قیام بہت مختصر ہے۔اس کا قیام شبنم کے ہونے کی طرح ہے کہ جو سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی ختم ہوجاتی ہے۔ٹھیک اسی طرح سے انسان کا قیام بھی دو چار سانسوں تک محیط ہے۔

چھٹا شعر

مؔیر کو کیوں نہ مغتنم جانیں؟
اگلے لوگوں میں اک رہا ہے یہ

مؔیر گویا ہیں کہ انہیں غنیمت سمجھ کے اگلے زمانے کے لوگوں میں وہ ہی تو ایک رہے ہیں کہ کل اگر نہ کریں تو نہ صرف مؔیر بلکہ پورے ایک دور کا خاتمہ ہوجائے گا۔لہذا مؔیر کی قدر کرنی چاہیے۔ان کا موجود ہونا، ان کی حیات غنیمت ہے۔