شکست زنداں کا خواب

0
  • نظم : شکستِ زنداں کا خواب
  • شاعر : جوش ملیح آبادی

تعارفِ نظم 

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی نظم ”شکستِ زنداں کا خواب“ سے لیا گیا ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام جوش ملیح آبادی ہے۔

تعارفِ شاعر 

آپ کا اصل نام شبیر احمد خاں تھا، جسے تبدیل کر کے آپ نے اپنا نام شبیر حسن خاں رکھا، آپ کا تخلص جوش تھا۔ ۵؍دسمبر ۱۸۹۸ء کو ضلع ملیح آباد(یوپی) میں پیدا ہوئے۔ ابتدا میں عزیز لکھنوی سے اصلاح لی، مگر بعد میں اپنے وجدان و ذوق کو رہبر بنایا۔ پاکستان آنے کے بعد اردو ترقیاتی بورڈ، کراچی کے مشیر خاص مقرر ہوئے۔ جوش ۲۲؍فروری ١٩٨٢ء کو راہی ملک عدم ہو گئے۔

شعر نمبر ۱ :

کیا ہند کا زنداں کانپ رہا ہے گونج رہی ہیں تکبیریں
اکتائے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں

تشریح :
جوش ملیح آبادی نے ہندوستان کی تحریک آزادی کے لئے قید خانے آباد کرنے والے ہم وطن ساتھیوں کو آزادی حاصل کرنے کا حسین خواب دکھایا ہے۔جوش ملیح آبادی کا کہنا ہے کہ جلد ہی غیر ملکی خداؤں کا ظلم ختم ہونے والا ہے اور ہم جلد ہی آزادی کی نعمت سے بہرا بر ہونے والے ہیں اور پھر تحریک آزادی کے سپاہی وہ فلک شگاف نعرے لگائیں گے کہ ان کی گونج سے قید خانے لرز اٹھیں گے اور میرے ہم وطن ساتھ آگے بڑھ کر ہر طرف آزادی کا پرچم لہرا دیں گے۔جوش ملیح آبادی نے ہندوستان کو زندان قرار دیا اور وہاں کے لوگوں کو قیدی۔ جوش ملیح آبادی کا کہنا ہے کہ ہندوستانی انگریزوں کے ظلم و ستم سے اکتا چکے ہیں اور آزادی حاصل کرنے کے لئے تدبیریں سوچ رہے ہیں۔

شعر نمبر ۲ 

دیواروں کے نیچے آ آ کر یوں جمع ہوئے ہیں زندانی
سینوں میں تلاطم بجلی کا آنکھوں میں جھلکتی شمشیریں

تشریح :
جوش ملیح آبادی نے ہندوستان کی تحریک آزادی کے لئے قید خانے آباد کرنے والے ہم وطن ساتھیوں کو آزادی حاصل کرنے کا حسین خواب دکھایا ہے۔جوش ملیح آبادی کا کہنا ہے کہ جلد ہی غیر ملکی خداؤں کا ظلم ختم ہونے والا ہے اور ہم جلد ہی آزادی کی نعمت سے بہرا بر ہونے والے ہیں اور پھر تحریک آزادی کے سپاہی وہ فلك شگاف نعرے لگائیں گے کہ ان کی گونج سے قید خانے لرز اٹھیں گے اور میرے ہم وطن ساتھ آگے بڑھ کر ہر طرف آزادی کا پرچم لہرا دیں گے۔ جوش ملیح آبادی کہتے ہیں کہ جو ہندوستانی ان فرنگیوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتے رہے اور قیدی سی زندگی گزارتے رہے اب ان ہی قیدیوں کے حوصلے اتنے بلند ہو چکے ہیں کہ وہ اپنی کوششوں کو کسی تلوار کی طرح استعمال کر کے کسی بھی طرح آزادی حاصل کر لیں گے۔

شعر نمبر ۳ :

بھوکوں کی نظر میں بجلی ہے توپوں کے دہانے ٹھنڈے ہیں
تقدیر کے لب کو جنبش ہے دم توڑ رہی ہیں تدبیریں

تشریح :
جوش ملیح آبادی نے ہندوستان کی تحریک آزادی کے لئے قید خانے آباد کرنے والے ہم وطن ساتھیوں کو آزادی حاصل کرنے کا حسین خواب دکھایا ہے۔جوش ملیح آبادی کا کہنا ہے کہ جلد ہی غیر ملکی خداؤں کا ظلم ختم ہونے والا ہے اور ہم جلد ہی آزادی کی نعمت سے بہرا بر ہونے والے ہیں اور پھر تحریک آزادی کے سپاہی وہ فلك شگاف نعرے لگائیں گے کہ ان کی گونج سے قید خانے لرز اٹھیں گے اور میرے ہم وطن ساتھ آگے بڑھ کر ہر طرف آزادی کا پرچم لہرا دیں گے۔ جوش ملیح آبادی کا کہنا ہے کہ ہندوستانی لوگ جو اپنی محنت کے زریعے انگریزوں کو منافع دیتے رہے مگر بدلے میں انہیں صرف بھوک سے نڈہالی ملی اب ان ہی بھوک سے پریشان لوگوں کے دلوں میں نفرت کا طوفان برپا تھا اور آنکھوں میں بجلی سی چمک تھی جو ان انگریز محکموں کو جلا کر خاکستر کر دے گی۔اور ان انگریزوں کی کوئی تدبیر کام نہیں آئے گی۔

شعر نمبر ۴ :

کیا ان کو خبر تھی سینوں سے جو خون چرایا کرتے تھے
اک روز اسی بے رنگی سے جھلکیں گی ہزاروں تصویریں

تشریح :
جوش ملیح آبادی نے ہندوستان کی تحریک آزادی کے لئے قید خانے آباد کرنے والے ہم وطن ساتھیوں کو آزادی حاصل کرنے کا حسین خواب دکھایا ہے۔جوش ملیح آبادی کا کہنا ہے کہ جلد ہی غیر ملکی خداؤں کا ظلم ختم ہونے والا ہے اور ہم جلد ہی آزادی کی نعمت سے بہرا بر ہونے والے ہیں اور پھر تحریک آزادی کے سپاہی وہ فلك شگاف نعرے لگائیں گے کہ ان کی گونج سے قید خانے لرز اٹھیں گے اور میرے ہم وطن ساتھ آگے بڑھ کر ہر طرف آزادی کا پرچم لہرا دیں گے۔ جوش ملیح آبادی فرماتے ہیں کہ کیا انگریز لوگ اس بات سے باخبر تھے کہ ان لوگوں کے مسلسل جبر نے جن ہندوستانیوں کا خون نچوڑ لیا تھا اب وہ ہی بے رنگ چہرے اپنے خوں کی سرخی سے داستان آزادی لکھیں گے اور ہر اک چہرہ آزادی کی مثال ہوگا۔

شعر نمبر ۵ :

کیا ان کو خبر تھی ہونٹوں پر جو قفل لگایا کرتے تھے
اک روز اسی خاموشی سے ٹپکیں گی دہکتی تقریریں

تشریح :
جوش ملیح آبادی نے ہندوستان کی تحریک آزادی کے لئے قید خانے آباد کرنے والے ہم وطن ساتھیوں کو آزادی حاصل کرنے کا حسین خواب دکھایا ہے۔جوش ملیح آبادی کا کہنا ہے کہ جلد ہی غیر ملکی خداؤں کا ظلم ختم ہونے والا ہے اور ہم جلد ہی آزادی کی نعمت سے بہرا بر ہونے والے ہیں اور پھر تحریک آزادی کے سپاہی وہ فلك شگاف نعرے لگائیں گے کہ ان کی گونج سے قید خانے لرز اٹھیں گے اور میرے ہم وطن ساتھ آگے بڑھ کر ہر طرف آزادی کا پرچم لہرا دیں گے۔ جوش ملیح آبادی کا کہنا ہے کہ کیا فرنگی یہ بات جانتے تھے کہ جن لوگوں پر انہوں نے اظھار خیال کرنے پر ان کے ہونٹوں پر قفل لگا دئے تھے اب وہ ہی قفل زدہ خاموش ہونٹ آزادی کے لئے تقریریں کرنے لگے گے۔

شعر نمبر ۶ :

سنبھلو کہ وہ زنداں گونج اٹھا جھپٹو کہ وہ قیدی چھوٹ گئے
اٹھو کہ وہ بیٹھیں دیواریں دوڑو کہ وہ ٹوٹی زنجیریں

تشریح :
مندرجہ بالا شعر میں جوش ملیح آبادی نے ہندوستان کی تحریک آزادی کے لئے قید خانے آباد کرنے والے ہم وطن ساتھیوں کو آزادی حاصل کرنے کا حسین خواب دکھایا ہے۔ جوش ملیح آبادی کا کہنا ہے کہ جلد ہی غیر ملکی خداؤں کا ظلم ختم ہونے والا ہے اور ہم جلد ہی آزادی کی نعمت سے بہرا بر ہونے والے ہیں اور پھر تحریک آزادی کے سپاہی وہ فلك شگاف نعرے لگائیں گے کہ ان کی گونج سے قید خانے لرز اٹھیں گے۔اور میرے ہم وطن ساتھ آگے بڑھ کر ہر طرف آزادی کا پرچم لہرا دیں گے۔

سوال نمبر ۱ : ذیل کے شعر کی تشریح کیجیے :

بھوکوں کی نظر میں بجلی ہے، توپوں کے دہانے ٹھنڈے ہیں
تقدیر کے لب کو جنبش ہے، دم توڑ رہی ہے تدبیریں

تشریح :
جوش ملیح آبادی نے ہندوستان کی تحریک آزادی کے لئے قید خانے آباد کرنے والے ہم وطن ساتھیوں کو آزادی حاصل کرنے کا حسین خواب دکھایا ہے۔جوش ملیح آبادی کا کہنا ہے کہ جلد ہی غیر ملکی خداؤں کا ظلم ختم ہونے والا ہے اور ہم جلد ہی آزادی کی نعمت سے بہرا بر ہونے والے ہیں اور پھر تحریک آزادی کے سپاہی وہ فلک شگاف نعرے لگائیں گے کہ ان کی گونج سے قید خانے لرز اٹھیں گے اور میرے ہم وطن ساتھ آگے بڑھ کر ہر طرف آزادی کا پرچم لہرا دیں گے۔ جوش ملیح آبادی کا کہنا ہے کہ ہندوستانی لوگ جو اپنی محنت کے زریعے انگریزوں کو منافع دیتے رہے مگر بدلے میں انہیں صرف بھوک سے نڈہالی ملی اب ان ہی بھوک سے پریشان لوگوں کے دلوں میں نفرت کا طوفان برپا تھا اور آنکھوں میں بجلی سی چمک تھی جو ان انگریز محکموں کو جلا کر خاکستر کر دے گی۔اور ان انگریزوں کی کوئی تدبیر کام نہیں آئے گی۔

سوال نمبر ۲ : اس نظم میں برصغیر پاک و ہند کے کس دور کی تصویر پیش کی گئی ہے؟

جواب : نظم شکست زندان کا خواب میں بر صغیر پاک و ہند کے اس دور کی تصویر پیش کی گئی ہے، جب غیر ملکی آقاؤں کا ظلم و ستم بر صغیر کے لوگوں پر حد سے زیادہ بڑھ گیا تھا اور ان میں انقلاب کی روح بیدار ہونے لگی تھی۔ بر صغیر کے لوگ دوسروں کی غلامی اور جبر سے عاجز آ چکے تھے اور آزادی کی تدبیروں کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے۔

سوال نمبر ۳ : شاعر نے اس نظم کا عنوان “شکست زنداں کا خؤاب” کیوں رکھا ہے؟

جواب : شاعر نے اس نظم کا عنوان شکست زندان کا خواب اس لئے رکھا ہے کیوں کہ یہ نظم آزادی کی نعمت حاصل کرنے کے پس و منظر پر لکھی گئی ہے۔ برصغیر کے لوگ انگریزوں کے ظلم و ستم سہہ سہہ کر تھک چکے تھے، ٹوٹ چکے تھے۔ آزادی ان کے لئے اک سہانا خواب بن گئی تھی۔ لیکن انگریزوں کے اس زندان کو خیر آباد کہنا بھی ان کے لئے لازم ہو گیا تھا۔ اس لئے آزادی کا خواب پورا کرنے کے لئے ان کی کوششیں جاری و ساری تھیں۔

سوال نمبر ۴ : مندرجہ ذیل کے معنی کی وضاحت کیجیے :

سینوں میں تلاطم بجلی کا سینوں میں آزادی حاصل کرنے کے لیے آگ ہونا۔
تقدیر کے لب کو جنبش ہے تقدیر یہ چاہتی ہے۔
بھوکوں کی نظر میں بجلی ہے وہ لوگ جو قیدی تھے وہ اس قدر بھوکے تھے کہ ان کی آنکھوں سے وحشت ٹپکتی تھی۔
سنبھلو کے وہ زنداں گونج اٹھا ہوشیار ہوجاؤ قیدی اپنا آپ چھڑانے کی تیاریاں کررہے ہیں۔

سوال نمبر ۵ : اس نظم کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے۔

خلاصہ :
اس نظم میں جوش ملیح آبادی نے ہندوستان کی تحریک آزادی کے لئے قید خانے آباد کرنے والے ہم وطن ساتھیوں کو آزادی حاصل کرنے کا حسین خواب دکھایا ہے۔ جوش ملیح آبادی کا کہنا ہے کہ جلد ہی غیر ملکی خداؤں کا ظلم ختم ہونے والا ہے اور ہم جلد ہی آزادی کی نعمت سے بہرا بر ہونے والے ہیں اور پھر تحریک آزادی کے سپاہی وہ فلک شگاف نعرے لگائیں گے کہ ان کی گونج سے قید خانے لرز اٹھیں گے اور میرے ہم وطن ساتھ آگے بڑھ کر ہر طرف آزادی کا پرچم لہرا دیں گے۔

دوسری جنگ عظیم میں جرمن اور جاپان کی پے در پے کامیابیوں نے برصغیر کے لوگوں میں آزادی کی شمع روشن کر دی۔ ہندوستان میں انگریز آقاؤں کے خلاف نفرت کا لاوا ابلنے لگا اور جوش ملیح آبادی جو کہ آزادی کی خواہش رکھتے ہیں وہ آزادی کا خواب دیکھنے لگے۔ جوش ملیح آبادی نے بر صغیر کو قید خانہ قرار دیا اور وہاں کے رہائشی کو قیدی۔ انگریزوں کے ظلم و ستم سے تنگ لوگوں میں آزادی کی خوائش زور پکڑ رہی ہے اور وہ قیدی فلک شگاف نعرے لگا رہے ہیں۔ یہ قیدی اس دور غلامی سے اکتا چکے ہیں اور اس طوق غلامی کو توڑ رہے ہیں۔ ہندوستانی لوگوں کو انگریزوں کا راج کبھی پسند نہیں رہا۔ ان کے طرح طرح کے ظلم و ستم بر صغیر کے لوگوں میں نفرت کا لاوا ابال رہے تھے۔ اس لئے ہندوستانی بس موقعے کی تلاش میں تھے کہ کب اس غلامی سے آزادی ملے گی اور کب اندھیری رات کے بعد کی پر نور صبح روشن ہوگی۔ اب جب ہر محاذ پر انگریزوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا تو ہندوستانیوں کے سینے میں جو نفرت کی آگ تھی وہ آنکھوں سے قہر کی بجلی سی نکلنے لگی اور عنقریب ہی وہ ان انگریز آقاؤں کو جلا کر خاکستر کر کے آزادی کی نعمت حاصل کر لے گی۔

ہندوستانی لوگ جو خود بھوکے رہے ظلم برداشت کرتے رہے مگر اپنی محنت کے زریعے انگریزوں کو منافع دیتے رہے اب ان ہی بھوک سے نڈہال لوگوں کے کی آنکھوں میں بجلی سی چمک رینگنے لگی تھی اور اب وہ بھی انگریزوں کو شکست دینے تدبیریں سوچنے لگے تھے ۔ یہ اہل جبر اس حقیقت سے با خبر تھے کہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے یہ چہرے ہمیشہ ایسے ہی بے رنگ رہیں گے لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ ہی بے رنگ چہرے اک دن اپنے خون کی سرخی سے داستان آزادی لکھیں گے اور ہر چہرہ آزادی کی مثال بن جاۓ گا۔ انگریزوں نے جو کسی راۓ پر اظہار کرنے پر ہندوستانیوں کے ہونٹوں پر قفل لگایا تھا اب وہی قفل لگے ہونٹوں میں اتنی جرت و ہمت آگئی تھی کہ وہ آزادی کے لئے اپنی اپنی راۓ اور تقریریں دینے لگے تھے اور ان کوششوں سے ایسے نعرے بلند ھوۓ جنہوں نے زمین آسمان کو ایک کر دیا اور ساری قید کی دیواریں ریزہ ریزہ کر دیں اور غلامی کی زنجیریں توڑ دیں اور اک پر نور صبح روشن ہو گئی۔

سوال نمبر ٦ : جزو “الف” اور جزو”ب” میں سے چن کر متضاد الفاظ کے جوڑے بنائیے۔

اول آخر
ظاہر باطن
کرم ستم
تعمیر تخریب