Advertisement
صبح سے شام ہو گئی ہو گی
جاں تیرے نام ہو گئی ہو گی

عشق کی راہ میں کھا کے دھوکہ
اب وہ بدنام ہو گئی ہو گی

عاشقی پہلے چھپ کے ہوتی تھی
اب سر عام ہو گئی ہو گی

موت اتنی بری نہیں ہو گی
یوں ہی بدنام ہو گئی ہو گی

زندگی انتظار میں تیرے
ہجر کی شام ہو گئی ہو گی

جب دعا نے اثر کِیا ماں کی
موت ناکام ہو گئی ہو گی

خوشبو جس کو تو کہتا تھا “اِندر”
اب وہ گلفام ہو گئی ہو گی
شاعر: اِندر سرازی

Advertisement