طنز و مزاح کی تعریف اور روایت

0

طنز و مزاح نگاری زندگی کی ناہمواریوں اور مضحکہ خیز صورت حال کو دلچسپ انداز میں پیش کرنے کا اسلوب ہے۔ خالص مزاح نگار جس چیز پر ہنستا ہے، اس کے تعلق سے اس کا انداز ہمدردانہ ہوتا ہے۔

طنز اور مزاح میں گہرا تعلق ہے۔طنز میں مزاح کی آمیزش سے اس کی تلخی میں کمی آجاتی ہے اور اس کی نشتریت گوارا ہو جاتی ہے۔ کسی تحریر میں صرف طنز ہو تو اس کے غیر دلچسپ اور ناگوار ہونے کا ڈر رہتا ہے اور نرا مزاح بے مقصد جنسی ٹھٹھول بن کر رہ جاتا ہے اس لیے عموماً ادیب یا شاعران دونوں کی آمیزش سے کام لیتے ہیں۔

طنز ومزاح نگار سماج میں پھیلی ہوئی بے راہ رویوں، انسانی کجرویوں اور تضادات پر قلم سے نشتر کا کام لیتاہے۔ وہ ادب میں اعلی انسانی اقدار کو پیش کر کے مایوس اور افسردہ انسانوں کے زخموں پر مرہم لگاتا ہے۔ کبھی کبھی اس کے ملٹر کی چوٹ اس قدر گہری ہوتی ہے کہ انسان تحملانے لگتا ہے ۔ لیکن غیر ارادی طور پر وہ خود پر ہنستا بھی ہے۔

طنز و مزاح کا ایک مقصد اصلاح بھی ہے۔اردو میں طنز و مزاح کے نمونے ہمیں ابتدائی دور ہی سے ملنے لگتے ہیں۔ اردو شعرا وادبا نے ابتدا ہی سے کھوکھلے سماجی رویوں ، تضادات، معاشرتی اور سیاسی برائیوں ، توہم پرستی اور فرسودہ روایات پر طنر کیا ہے۔جعفر زٹلی نے اپنے عہد کے سیاسی و سماجی حالات، اقتصادی بدحالی اور تہذیبی زوال پر طنزومزاح کے پیراۓ میں اشعار کہے۔

سودا نے اپنے گردو پیش کے انتشار ،اخلاقی اور تہذیبی زوال، بے اعتدالی اور عدم توازن کو ہجو کا موضوع بنایا۔ نظیر اکبرآبادی کے کلام میں بھی طنز و مزاح کے عناصر ملتے ہیں۔ انشاء اللہ خان انشا نے بھی طنز ومزاح سے کام لیا ہے۔ مرزا غالب کے یہاں بھی طنز وظرافت کے بہترین نمونے ملتے ہیں۔انھوں نے اپنا بھی مذاق اڑایا ہے اور جبر محکومی اور اپنے مصائب پر بلیغ طنز کیا ہے۔

اخبار ”اودھ پنچ “ کی تحریروں میں طنز و مزاح کو باقاعدگی کے ساتھ برتا گیا۔اس میں لکھنے والوں نے مغرب پرستی فیشن پسندی، سامراجیت، تہذیبی و اخلاقی زوال، سیاسی صورت حال اور معاشرتی کجروی کونشانہ بنایا۔ ان قلم کاروں نے تصنع اور بناوٹ پر کاری ضرب لگائی اور مغرب کی تہذیبی آندھی کو روکنے کی کوشش کی ۔ اودھ پنج کے قلم کاروں میں منشی سجاد حسین ، پنڈت تربھون ناتھ ہجر ، احمد علی شوق ،عبدالغفور شہباز اکبر الہ آبادی اور سید محمد آزاد زیادہ مشہور ہیں۔

’’اودھ اخبار‘‘ نے بھی نظم و نثر میں طنز و مزاح کے فروغ میں خاص کردار ادا کیا۔ پنڈت رتن ناتھ سرشار کا ناول ’’فسانہ آزاد‘ اسی میں قسط وار شائع ہوا تھا۔ طنز و مزاح کے اعتبار سے خوجی ان کا نمائندہ کردار ہے۔اکبر الہ آبادی نے طنز و مزاح کو ایک نئی بلندی عطا کی۔ وہ مشرقی اقداروروایات کا احترام کرتے تھے اور اسے مغرب کی کورانہ تقلید سے محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔

علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ابتدائی دنوں میں طنزیہ ومزاحیہ نوعیت کی کئی نظمیں کہی ہیں۔ بعد کے دور میں راجا مہدی علی خاں ، دلاور فگار شاد عارفی امیر جعفری اور رضا نقوی واہی نے طنزیہ و مزاحیہ شاعری کو اعتبار بخشا۔ نثر میں ملا رموزی ، خواجہ حسن نظامی ،مرزا فرحت اللہ بیگ ، پطرس بخاری، رشید احمد صدیقی اور تخلص بھوپالی نے اردو طنز و مزاح کو معیار و مواد کے اعتبار سے بلند کیا۔ اس دور کے دیگر اہم قلم کاروں میں امتیاز علی تاج عظیم بیگ چغتائی ،انجم مانپوری ، وجاہت علی سند یلوی، کرشن چندر، کنہیا لال کپور فکر تونسوی اور شوکت تھانوی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ موجودہ عہد کے ممتاز طنز و مزاح نگاروں میں ابن انشا، کرنل محمد خاں مشفق خواجہ،شفیق الرحمن ، مشتاق احمد یوسفی ، یوسف ناظم شفیقہ فرحت ، احمد جمال پاشا اور مجتبی حسین کے نام شامل ہیں۔