ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے

0

غزل

ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے
اک شمع ہے دلیل سحر سو خموش ہے
نے مژدۂ وصال نہ نظارہ جمال
مدت ہوئی کہ آشتی چشم و گوش ہے
مے نے کیا ہے حسن خود آرا کو بے حجاب
اے شوق! ہاں اجازت تسلیم ہوش ہے
دیدار بادہ حوصلہ ساقی نگاہ مست
بزم خیال مے کدۂ بے خروش ہے
اے تازہ واردان بساط ہوائے دل
زنہار اگر تمہیں ہوس نائے و نوش ہے
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے
ساقی بہ جلوہ دشمن ایمان و آگہی
مطرب بہ نغمہ رہزن تمکین و ہوش ہے
یا شب کو دیکھتے تھے کہ ہر گوشۂ بساط
دامان باغبان و کف گل فروش ہے
لطف خرام ساقی و ذوق صدائے چنگ
یہ جنت نگاہ وہ فردوس گوش ہے
یا صبح دم جو دیکھیے آ کر تو بزم میں
نے وہ سرور و سوز نہ جوش و خروش ہے
داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالبؔ صریر خامہ نوائے سروش ہے

تشریح

پہلا شعر

ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے
اک شمع ہے دلیل سحر سو خموش ہے

شاعر کہتا ہے کہ میرے ظلمت کدے میں شب غم ہی کا جوش ہے۔یعنی اندھیرا ہی اندھیرا ہے کہ صبح گویا ہوئی ہی نہیں۔ نہیں۔ صبح کی دلیل یعنی بجھی ہوی شمع ہے۔ وہ اس لئے کہ شمع صبح کو بجھا دی جاتی ہے۔لیکن وہ خود خاموش ہے۔ یعنی بجھائی ہوئی ہے۔گویا تاریکی کا سبب ہے۔اب جس گھر میں علامت صُبح نوید ظٗلمت ہوگی اس گھر کی تاریکی کا کیا عالم ہوگا؟

دوسرا شعر

نے مژدۂ وصال نہ نظارہ جمال
مدت ہوئی کہ آشتی چشم و گوش ہے

شاعر کہتا ہے کہ ایک مدت سے نہ کانوں سے وصال کا مثردہ سنا ہے اور نہ آنکھوں نے محبوب کے دیدار کا لطف اٹھایا ہے۔لہذا ان دونوں میں صلح ہو گئی ہے گویا پہلے چشم و گوش میں ان بن رہتی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ اگر پہلے مثررہ سن کر لُطف اندوز ہونگے اور ہم مہروم رہے۔اور اگر وصال کان سُن لیتے تھے تو آنکھیں حضرت کردیں کہ کون پہلے یہ مثردہ سن کر لطف اندوز ہوگۓ اور محروم رہے۔اور ہم محروم رہیں اور اگر آنکھیں پہلے اس کا نطارا جمال کر لیتیں توکان حسد کرتے۔ غرض آپس کی یہ کشمکش اور رشک وحسد سے لڑائیں جاری رہتی تھیں۔لیکن اب مدت سے نہ کانو نے وصال کی خوشخبری سنی اور نہ آنکھوں نے دیدار کیا۔اس لئے دونوں کی لڑائیاں ختم ہوگئی اور دونوں کی صلح ہوگئی۔

تیسرا شعر

مے نے کیا ہے حسن خود آرا کو بے حجاب
اے شوق! ہاں اجازت تسلیم ہوش ہے

شاعر کہتا ہے کہ مے کے نشے نے اس حسن خودآرا کو بے حجاب کر دیا ہے۔لہزا اے شوق! ایسی حالت میں تجھے اجازت ہے کہ تو اپنے ہوش و حواس اور ضبط کو بالائے طاق رکھ دے۔ یعنی تو بھی بے حجاب ہو جا اور اپنے دل کے ارمان نکال لے۔

چوتھا شعر

دیدار بادہ حوصلہ ساقی نگاہ مست
بزم خیال مے کدۂ بے خروش ہے

مے کدے میں شور وشر ہوتا ہے۔لیکن بزم حیال کا میکدہ ایسا ہے شور ووغُل نہیں ہوا کرتا ہے۔ یہاں معشوق کا دیدار شراب ہے۔ وہ کبھی ختم ہوتی نہیں اور اور ساقی حوصلے اور ظرف کے مطابق شراب پلاۓ جاتا ہے۔ناگاہ ایسی مے یہ خوار کہ شراب دیدار پۓ ہی جاتی ہے لیکن پھر بھی بدمست ہو کر کوئ ہنگاما نہیں کرتی۔

پانچواں شعر

اے تازہ واردان بساط ہوائے دل
زنہار اگر تمہیں ہوس نائے و نوش ہے

یہ چند اشعار قطعہ بند ہیں۔شاعر ان لوگوں سے خطاب کر رہا ہے جو بزم عشق میں نئے آئے ہیں۔کہتا ہے کہ لوگو !جو بزم عشق میں پہلی مرتبہ آئے ہو تو خبردار، اگر تمہیں نغمہ سُننے کی یا شراب پینے کے خواہش ہو تو۔

چھٹا شعر

دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے

اس بزم میں قدم رکھنے سے پہلے اگر تم دیدہ عبرت رکھتے ہو تو میری حالت کو غور سے دیکھو کہ اس عشق کی بدولت میرا کیسا عبرت ناک کا حال ہوا ہے۔ اگر تمہیں نصیحت سننے والے کان رکھتے ہو تو میری بات کو دھیان سے سنو۔

ساتواں شعر

ساقی بہ جلوہ دشمن ایمان و آگہی
مطرب بہ نغمہ رہزن تمکین و ہوش ہے

جب ساقی جلوہ افروز ہوتا ہے تو اپنے دل فریب حسن سے ایمان اور عقل کو ڈھیر کر دیتا ہے اور جب مطرب گاتا ہے تو وہ اپنی خوش نوائی سےصبر و ہوش لوٹ لیتا ہے۔

آٹھواں شعر

یا شب کو دیکھتے تھے کہ ہر گوشۂ بساط
دامان باغبان و کف گل فروش ہے

رات کو تو گہما گہمی کا یہ عالم تھاکہ محفل عیش و طرب کے فرش کا ہر کونہ پھولوں کی کثرت سے دامن باغبان اور کف گل فروش بنا ہوا تھا۔ گویا ہر طرف پھول ہی پھول تھے۔

نواں شعر

لطف خرام ساقی و ذوق صدائے چنگ
یہ جنت نگاہ وہ فردوس گوش ہے

ساقی کی خوش خرامی کا لطف آنکھوں کو جنت کا نظارہ دکھلاتا تھا اور باجے کی میٹھی میٹھی آواز کانوں کو فردوس کا مزہ دے رہی تھی۔ یعنی ساقی کے خرام سے آنکھیں اور باجے کی صدا سے کون لطف اٹھا رہے تھے۔ ایسا لُطف جو جنت میں حاصل ہو سکتا ہے۔

دسواں شعر

یا صبح دم جو دیکھیے آ کر تو بزم میں
نے وہ سرور و سوز نہ جوش و خروش ہے

پھر صبح کے وقت بزم میں آکر کیا دیکھتے ہیں کہ اداسی ہی اداسی ہے۔ نہ وہ سرور و سوز ہے اور نہ جوش و خروش۔

گیارھواں شعر

داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے

یعنی استعمال عیش و عشرت کے بدلے صرف ایک شرم ہے باقی رہ گئی ہے جو صحبت شب کی جُدائ میں داغ داغ اور خاموش ہے۔

بارھواں شعر

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالبؔ صریر خامہ نوائے سروش ہے

شاعر کہتا ہے یہ بلند اور اچھوتے مضامین میرے خیال میں غیب سے آتے ہیں اوت میرے قلم کی آواز کو فرشتے غیب کی آواز سمجھتا ہے۔یعنی میرے لیے یہ بلیغ مضامین غیب سے لایۓ جاتے ہیں۔