عدل وانصاف اور مساوات

0

کسی ملک، قوم اور معاشرے کو ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے عدل وانصاف اور مساوات کا دامن تھامنا پڑتا ہے۔اور اگر یہ دو اصول فراموش کر دئیے جائیں تو معاشرہ تباہی کے آخری دہانے پہ پہنچ جاتا ہے۔ آقا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل عرب معاشرے پر نظرِ غائر کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عرب معاشرہ تباہی کی آخری حدوں کو چھو رہا تھا۔چوری فخر بن گئی تھی،انسانوں کی کھوپڑیوں میں جام نوش کیا جاتا،کمزوروں ، غلاموں اور یتیموں مسکینوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ، بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔لیکن جب آقا صلی اللّٰہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو آپ نے لوگوں کو اخوت و مساوات کا درس دیا۔تو وہ لوگ جو پہلے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ان میں بھی بھائی چارے اور برابری کی فضا پروان چڑھنے لگی۔

حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر فرمایا:-
” کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی عربی کو کسی عجمی پر ، کسی کالے کو کسی گورے پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔فضیلت و برتری کا معیار صرف تقویٰ ہے ۔”

اسی طرح جب ریاستِ مدینہ میں عدل و انصاف کا پرچم سر بلند ہوا تو لوگ جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے۔حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین نے نا صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی مساوات ، رواداری اور عدل وانصاف روا رکھا ۔عدل وانصاف کے قیام میں جو کردار حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے ادا کیا وہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔

اسلام ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ “اے ایمان والو! انصاف قائم کرنے والے بنو،اللّٰہ کی خاطر گواہی دینے والے بنو۔چاہے وہ گواہی تمہارے اپنے خلاف پڑتی ہو یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف۔چاہے امیر ہو یا غریب ، اللّٰہ تو دونوں کا خیر خواہ ہے۔لہذا ایسی نفسانی خواہش کے پیچھے نہ چلنا جو تمہیں انصاف کرنے سے روکے۔”

صد افسوس! کہ آج اگر ہمارا ملک پسماندگی کا شکار ہے تو اس زوال کی بنیادی وجہ مساوات ، رواداری اور عدل وانصاف کے سنہری اصولوں سے روگردانی ہے۔ہمارے ملک میں امیروں پر اور قانون لاگو کیا جاتا ہے اور غریبوں پر اور۔عدم مساوات کے باعث امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔

حقوق کی برابری یہ نہیں کہ سب کو یکساں حقوق ملیں ، حقوق کی برابری یہ ہے کہ جس کے لیے جیسے بہتر ہے اسے ویسے ملے۔

ہمارے ملک میں قانون موجود ہے۔اسی لیے تو مجرم راتوں رات ملک سے فرار ہوجاتے ہیں تاکہ قانون کی گرفت سے بچ سکیں۔لیکن یہاں انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے فیصلہ صادر کرنے والی عدالت اور عدل کی ترجمانی کرنے والے جج و وکلاء موجود نہیں ہیں۔یہاں پارلیمنٹ میں آنے والے مقرر خود کو ڈزنی لینڈ کے پرنس سمجھتے ہیں۔ہمارے حکمران اور عوام فتنہ و فساد برپا کرنے میں پیش پیش ہیں۔”سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں” ہم ایک ہیں۔یہ پُر سوز ترانہ تو ہم بہت عرصہ سے بھلا چکے ہیں۔ہمارے آباؤاجداد زمانے میں مسلماں ہو گے معزز تھے اور ہم تارکِ قرآن ہو کر خوار ہو رہے ہیں۔

حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
” کوئی بھی معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے مگر ناانصافی پر نہیں۔” اگر ہم بقا اور عروج کے خواہاں ہیں تو ہمیں اپنے ملک میں مساوات اور عدل وانصاف کی فضا قائم کرنے ہوگی۔تاکہ ہم اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکیں۔

بقولِ شاعر؀

مقصدِ تخلیقِ وجود کی طرف آنا ہوگا
صفاتِ الٰہی کو متعارف کروانا ہوگا
نظامِ ظلم کو ہستی سے مٹانا ہوگا
عدل وانصاف کا وقت نہیں زمانہ ہوگا
تحریر: نورین فاطمہ غازی