Back to: اِندرؔ سرازی
Advertisement
عشق کا حادثہ نہیں ہوتا گر تو مجھ سے ملا نہیں ہوتا کچھ تو ہے ورنہ ان فضاؤں میں یوں ترا تذکرہ نہیں ہوتا کچھ ہوا کا بھی ہاتھ تھا ورنہ پردہ یوں ہی ہلا نہیں ہوتا اپنی اپنی پسند ہے ویسے شعر کوئی برا نہیں ہوتا کچھ ترا بھی سرور ہے ورنہ مے میں اتنا نشہ نہیں ہوتا بڑی شدت سے یاد آ رہا ہے جس سے اب رابطہ نہیں ہوتا وہیں پر ساتھ چھوڑتی ہے زیست جس جگہ چھوڑنا نہیں ہوتا دل اسی سے جا ملتا ہے اِندرؔ جس کا کوئی پتہ نہیں ہوتا |
Advertisement