علامتیت کی تعریف، اقسام، آغاز و ارتقاء

0

علامت ایک ایسا تخلیقی آلہ ہے جسے شعر و نثر کی دنیا میں رد کرنا ناممکن ہے۔ علامت نگاری (Symbolism) یہ زمان و مکان کے دائرے میں وقوع پذیر وارداتوں کو ان الفاظ میں پیش کرتی ہے جو معنویت کا نیا در وا کرتی ہے۔ علامتی انداز میں وہ بات آسانی سے کہی جا کستی ہے جسے اگر براہ راست کہا جائے تو وہ حسن اور معنیٰ ہر گز پیدا نہیں ہو سکتا۔اگر ایک جملے میں علامت نگاری کی تعریف کی جائے تو کہ سکتے ہیں کہ علامت سے مراد مختلف افکار و خیالات اور احساسات و جذبات کو مخصوص الفاظ و اشارات کی صورت میں بیان کرنا ہے۔

علامت نگاری کو ایک تحریک کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ اس کے کئی پہلو ہیں اس لئے کسی ایک مخصوص پہلو کی تعریف نہیں کی جا سکتی۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے ادب کی کوئی مخصوص تعریف نہیں ہو سکتی۔ مختلف اہلِ علم ، اہل ِ فکر اور اہلِ ادب حضرات نے اپنے اپنے الفاظ میں علامت نگاری کی تفصیلی وضاحت کی ہے۔

علامت بنیادی طور انگریزی لفظ (symbol) کا ترجمہ ہے جو کہ یونانی لفظ (symboline) سے لیا گیا ہے۔ جس کے معنی ” دو ایک جیسی چیزیں کہنا ” ہے۔ مگر اردو لغت میں علامت کے معنی اشاره ، نشان ،کنایہ ، مارک وغیره هیں۔ جیسے ریاضی میں جمع ، نفی ، ضرب ، تقسیم وغیره کے لیے علامتیں وضع کی گئیں اسی طرح ادب میں شاعروں اور ادیبوں نے مختلف افکار و نظریات اور احساسات و جذبات کے لیے علامتیں تخلیق کیں۔

(یاد رہے ادب اور فلسفے میں علامت سے مراد نشان یا اشاره نہیں۔ یعنی یہاں علامت اپنے لغوی معنوں میں استعمال نہیں ہوتی بلکہ علامت وسیع معنے رکهتی ہے۔ مثلاً بہار ایک علامت ہےجو کے مختلف معنی لیے ہوئےہے۔ بہار سے مراد پهولوں کے کھلنے کا موسم ، ہریالی اور شادابی کی علامت ، خوشی اور مسرت کی نوید ، زندگی کی علامت)

علامتوں کا استعمال اگرچہ ادب میں بہت عرصے سے ہوتا آ رہا تھا۔ یعنی کلاسیکی شاعری اور نثر میں استعاروں ، کنائیوں اور مختلف علامتوں کے ڈھیروں نمونے ملتے ہیں۔ جیسے شیخ ، واعظ ، صنم ، بت خانہ ، مو ، دشت و صحرا ، کاکل ، ناگن وغیره ۔ اسی طرح داستانوں میں دیو مالائی عناصر ، طلسم ، خضر ، جنگل ،آب حیات ، آب حیواں ، اور مختلف علامتیں استعمال ہوتی رہیں ہیں۔

اس طرح تشبیہ ، استعاره ، کنایہ اور مجاز مرسل وغیره علامت کے زمرے میں آتے ہیں لیکن جدید ادب میں علامت نگاری کا استعمال
مختلف ہے جو کہ ہر لمحہ کے ساتھ نئے امکانات ظاہر کر رہا ہے۔ جس طرح کائنات ہر لمحہ تغیر پذیر ہے اسی طرح علامتوں کا استعمال بھی مسلسل بدل رہا هے۔ ادبی علامت خواہ کوئی تصنیف ہو یا اس کا ایک حصہ واضح تجسیم ہے جس طرح روح یا قُوتِ حیات ہمارے جسم کے اندر رہتی اور باہر جھلکتی ہے اسی طرح خیال اور احساس اس ہئیت، شکل یا جام میں رہتے ہیں جسے ہم علامت کہتے ہیں۔

  • علامت کی تین بنیادی اقسام ہیں۔
  • 1 – آفاقی (universal symbols)
  • 2 – علاقائی (regional symbols)
  • 3 – شخصی (personal symbols )

آفاقی علامتیں وه ہیں جن کا تعلق پوری انسانیت سے ہے۔ مثلاً پیار (love) خدا (GOD) وغیره۔
علاقائی علامتیں وه ہیں جن کا تعلق کسی مخصوص خطے سے هو۔ مثلاََ ہیر رانجها ، شیریں فرہاد ، رومیو جیولیٹ وغیره۔
شخصی علامات وه ہیں جن کی تخلیق کسی شخص کی اپنی ذات کے مرہون منت ہو۔

علامت نگاری کا باقاعده آغاز بیسویں صدی میں ہوا۔ یہ رجحان یورپی ادب سے اردو ادب میں در آیا اور بہت کم عرصے میں اردو ادب میں رواج پا گیا۔ علامت نگاری نے شاعری میں نظم اور غزل کو اک نیے جہاں دیا۔ اقبال ، فیض ، مجید امجد ، ناصر ، راشد اور بعد کے سینکڑوں شعرا کے ہاں علامت نگاری نے نئے در وا کيے ہیں۔ جیسے اقبال کے ہاں شاہیں ، لالہ ، جگنو ، ستاره وغیره۔ یہ علامتیں کثرت سے استعمال سے استعمال ہوئیں ہیں۔

فیض کے ہاں غزل و نظم میں علامتوں کی عمده مثالیں ملتی ہیں۔ ان کی مشہور علامتی نظموں میں ” صبح آزادی ، اے دلِِ بیتاب ٹھہر ، کتے ، بول ، ملاقات وغیره شامل ہیں۔
جدید نظم میں راشد کو امام کی حیثیت حاصل ہے۔ انکی اہم ترین علامتی نظموں میں زنجیر ، انتقام ، من و سلوی ، حسن کوزه گر ، اندها کباڑی ” وغیره شامل ہیں۔
علامت کا استعمال نہ صرف شاعری میں ہوا ہے بلکہ فکشن میں بھی ہوا ہے۔ خاص طور پر افسانے میں علامت کا استعمال زیاده ہوا ہے۔ اردو کے ابتدائی چند اهم علامتی افسانے یہ ہیں۔

  • 1 – میرا کمره – احمد علی
  • 2 – پھندے ، ٹوبہ ٹیک سنگھ – منٹو
  • 3 – صدیاں – عزیز احمد
  • 4 – غالیچہ – کرشن چندر وغیره۔

ایچ فلینڈرز ڈنبر(H.Flanders Dunbar) نے علامت کی تین قسمیں مقرر کیں ہیں۔

  • خارجی علامت: خارجی علامت کی حیثیت محض دُم چھلے کی طرح ہوتی ہیں۔
  • داخلی علامت: داخلی علامت کسی نہ کسی صورت نفسِ شے سے گہراتعلق رکھتی ہیں۔ فنونِ لطیفہ اور مذہبی صحیفوںمیں علامتوں کی اسی قسم کی خوبی پائی جاتی ہے۔
  • بصیرتی علامت: بصیرتی علامت سب سے اہم ہے اور یہ گہرائی کی حامل ہوتی ہیں۔ یہ عقل کے ذریعے معنیٰ تک رسائی تو کرتی ہی ہیں بلکہ مثالی اور روحانی دنیا کے تصور سے ماوراء حقیقتوں کے پردے چاک کرکے متن کو کثیر الجہت بنا دیتی ہیں۔
تحریر محمد ذیشان اکرم