Advertisement
Advertisement

علامہ اقبال کی نظم سیر فلک کی تشریح

علامہ اقبال کی یہ نظم (سر فلک) “بانگ درا” میں شامل ہے جو ان کا پہلا اردو شعری مجموعہ ہے، 1924ء میں پہلی مرتبہ شائع ہوکر منظر عام پر آیا۔علامہ اقبال کی اس نظم سے متعلق بات کی جائے تو اس نظم میں علامہ اقبال نے عالم خیال میں آسمان کی پرواز کی کہانی پیش کی ہے اور جنت اور دوزخ کے واقعات بڑے دلکش انداز میں بیان کیے ہیں۔

Advertisement

یہ نظم بہت ہی دلکش ہے، بنیادی تصوّر اس نظم کا یہ ہے کہ جہنم دراصل تاریک، خاموش اور سرد ہے۔ اس کی گرمی یا اس کے شعلے ذاتی نہیں ہیں بلکہ جو لوگ اپنی بد اعمالیوں کی بنا پر یہاں آتے ہیں وہ اپنی بد اعمالیاں اپنے ساتھ لاتے ہیں، یعنی انسان خود اپنے ہاتھ سے اپنی دوزخ بناتا ہے۔ مثلاً جو زمیندار یا جاگیردار غریب کاشتکاروں کا خون چوس چوس کر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں تو دوزخ میں یہی دولت ان کے حق میں وبالِ جان بن جائے گی۔ چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے۔

“قیامت کے دن ان لوگوں کی، جنہوں نے دنیا میں سونا چاندی جمع کیا اور اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کیا۔تو ان کی پیشانیوں پہلوؤں اور پشتو‌ں کو اسی سونے چاندی سے، جس کو گرم کر لیا جائے گا، داغا جائے گا اور فرشتے ان سے کہیں گے کہ مزہ چکھو اس دولت کا جسے تم نے دنیا میں جمع کیا تھا”

Advertisement

علامہ اقبال نے قرآن مقدس کی اسی آیت کریمہ کی بدولت لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ رشوت خوری، امانت میں خیانت، بلیک مارکیٹ، نفع اندوزی، ذخیرہ سازی وغیرہ جیسی لعنتوں کو چھوڑ کر اللہ پاک کے عذاب سے ڈریں اور دوزخ کے وحشت ناک عذاب سے اپنے آپ کو بچائیں۔

Advertisement

یہ نظم دو بندوں پر مشتمل ہے۔ پہلے بند میں صرف چار اشعار ہیں اور دوسرے بند میں دس اشعار شامل ہیں۔ اب آئیے اس نظم کی تشریح پڑھتے ہیں۔

پہلے بند کی تشریح

شاعر کہتا ہے کہ ایک دن میں نے عالم خیال میں آسمان کی طرف پرواز شروع کی۔ وہاں کوئی شخص میرا واقف کار نہیں تھا، تارے مجھے بڑے تعجب سے دیکھتے تھے کہ یہ شخص کہاں جا رہا ہے لیکن میرا سفر ایک راز تھا جس سے وہ آگاہ نہیں تھے یعنی میں جہنم کی ماہیت و حقیقت دریافت کرنے جارہا تھا۔

Advertisement

دوسرے بند کی تشریح

شاعر کہتا ہے پہلے میں جنت میں گیا وہاں درختوں پر پرندے گانا گا رہے تھے اور حوریں آزادی کے ساتھ باغوں کی سیر کر رہی تھیں، جنتی لوگ شرابِ طہور نوش فرما رہے تھے۔ دور سے میں نے ایک نہایت سیاہ مکان دیکھا، یہ مکان لیلیٰ کی زلفوں سے بھی سیاہ تھا اور تاریکی کے علاوہ وہاں سردی اس قدر شدید تھی کہ اس کے سامنے کرّہ زمہریر(انتہائی سرد علاقہ) کی بھی کوئی حقیقت نہیں تھی، میں نے فرشتوں سے پوچھا یہ کونسی جگہ ہے؟

فرشتوں نے کہا یہ جہنم ہے، آگ اور روشنی دونوں سے محروم ہے۔ اس کے شعلے ذاتی نہیں ہیں بلکہ جہنمی لوگ اپنے شعلے (انگارے) دنیا ہی سے اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ مثلاً ان دولت مند لوگوں کے حق میں جو اپنی دولت خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، ان کی وہ دولت ہی عذاب بن جائے گی جیسا کہ میں نے شروع میں قرآن کی آیت سے واضح کیا ہے۔

اگر ان شعلوں سے خیالات مراد لیے جائیں تو یہ معنی ہونگے کہ دوزخی لوگ اپنے خیالات اور اعمال بد ساتھ لاتے ہیں اور یہ خیالات اور اعمال بد ہی ان کے حق میں عذاب کے شعلے بن جاتے ہیں۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جہنم کے شعلے ذاتی نہیں بلکہ مستعار ہوتے ہیں اور یہی وہ بنیادی تصوّر ہے جسے علامہ اقبال اس نظم کے ذریعے ہمارے ذہن میں ڈالنا چاہتے ہیں۔

Advertisement

Advertisement