عورت، روایت اور تھیٹر

0

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی  ساز  سے  ہے  زندگی  کا  سوز  دروں

ایک لاکھ سال پہلے عورت حیاتیاتی بقاء اور افزائش کے لیے بچے پیدا کرتی تھی اور اسے مرد پر فوقیت حاصل تھی۔ کیونکہ اس پتھر کے زمانے میں عورت شکار کرتی تھی اور عورتیں قبیلے کی سردار بنتی تھیں۔ یہ پدری اور مادری نظام کی جنگ ایک مضبوط روایت کے طور پر آج بھی ہمارے معاشرے میں جابجا نظر آتی ہے۔ پھر اچانک مرد نے ایک تو شکار کرنا سیکھ لیا، دوسرا اس نے زراعت کے اوزار تیار کر لیے اور محض اسی بنیاد پر مرد اپنا تسلط اور فوقیت قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ جیسے ہی مادری نظام کمزور پڑا عین اسی وقت مرد نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ عورت کو جنگوں سے دور رکھے گا کیونکہ اسے یہ خدشہ لاحق ہوگیا تھا کہ اگر عورتیں دشمن کی قید میں جائیں گی تو وہ دشمن کی نسل میں اضافے کا سبب ہو سکتی ہیں، اور اس طرح عورت مرد کا حکم ماننے پر مجبور نظر آئی۔

گوتم بدھ اپنے عہد کی نئی اصلاح پسندی کا نمائندہ بن کر آیا تو اس نے بھی زوال یافتہ عورت کی طرف توجہ نہ کی۔ اس نے بھی عورت سے بے زاری کا اظہار کیا ہے، وہ کہتا ہے کہ عورت اپنی کشش سے مرد کو راہ راست سے ہٹا دیتی ہے، اور اگر پیدائش کا عمل روک دیا جائے تو دنیا کے سارے دکھ ختم ہو سکتے ہیں۔ بڑی حیران کن بات ہے کہ گوتم نے بھی عورت کو دکھ اور فساد کا سبب جانا۔

روایت کی بات کی جائے تو عورت بھلے وقتوں میں ایک مضبوط کردار اور حیثیت کی مالک رہی ہے۔ بابر کی والدہ تغلق نگار خانم، ہمایوں کی والدہ ماہم بیگم، اکبر کی والدہ حمیدہ بیگم، جہانگیر کی والدہ مریم زمانی، شاہ جہاں کی والدہ جودھابائی، عالمگیر کی والدہ ممتاز محل جیسی عورتیں کاروبار سلطنت، علم و ادب، مذہب، شکار، جنگ، فنون کے حوالے سے تاریخ میں نمایاں نظر آتی ہیں لیکن مغلوں کے زوال کے بعد ان کی جگہ طوائفوں اور ڈومنیوں نے لے لی۔

مسلم حکمرانوں کے ہاں عموماََ یہ طریقہ رہا کہ وہ بے شمار کنیزوں کے علاوہ چار شرعی بیویاں بھی رکھتے تھے، لیکن انہیں بھی وہ طلاق کے ذریعے سے مسلسل بدلتے رہتے تھے۔ جنسی تعلق کے باوجود کنیز یا لونڈی ملکیت اور اس کے وارث کے حوالے سے مرد پر کوئی حق نہیں رکھتی تھی، بلکہ خود قابل خریدوفروخت تھی اور اس ضابطہ اخلاق کی پابند نہیں تھی جس کی کے مرد کے وارث پیدا کرنے والی گھریلو عورت پابند تھی۔ یہی وجہ ہے کہ غیرت، عزت، شرم و حیا، پردہ وغیرہ کے تصورات بیوی کے ساتھ تو مشروط ہوتے تھے لیکن کنیز یا لونڈی کے ساتھ نہیں۔ کنیز یا لونڈی کی قیمت بڑھانے کے لیے اسے مختلف خصوصی مہارتیں، رقص، موسیقی، شاعری، آداب وغیرہ سکھائے جاتے تھے۔

ہندوستانی مسلم حکمرانوں نے چکلوں کی تنظیم اور نگرانی کے لیے باقاعدہ محکمہ قائم کیا۔ اس کے علاوہ بڑے چشم کشا حقائق ہمارے سامنے آتے ہیں کہ علاؤ الدین خلجی نے دوسری اجناس کی طرح گھر کا کام کرنے والی اور آقا کی خلوت کو رنگین بنانے والی لونڈی کے علاوہ گھر کے کام کرنے والے اور آقا کو جنسی تسکین دینے والے غلاموں کے بھی نرخ مقرر کیے۔ اکبر جس عورت پر شہوت کی نظر رکھتا وہ اپنے مرد کے لئے حرام ہو جاتی اور بناؤ سنگھار کر کے اکبر کی خدمت میں پیش کر دی جاتی۔

امام غزالی نے بڑی عجیب بات کی کہ نکاح کا مطلب لونڈی ہو جانا ہے لہذا بیوی اپنے شوہر کی لونڈی ہے، اور کسی نے کہا کہ عورت بچے کھچے مواد سے پیدا کی گئی اس لیے وہ کم تر اور ٹیڑھی ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کی وجہ سے معاشی بحران پیدا ہوا تو عورتیں انگریز کے بنائے ہوئے چکلوں سے وابستہ ہوگئیں۔ انگریزوں نے اپنے سپاہیوں اور فوجیوں کی تسکین اور صحت کے نظریہ کے تحت شہروں میں بازار حسن اور چکلوں کو منظم طور پر قائم کیا اور ہندوستان بھر سے سیکڑوں عورتوں کو باقاعدہ لائسنس جاری کر کے جسم فروشی پر مجبور کیا۔

مجال ہے کہ عورت کے اس استحصال پر کسی نے زبان کھولی ہو۔ ڈپٹی نذیر احمد، سر سیداحمدخان، اکبر الہ آبادی، عبدالحلیم شرر، اقبال، سب کی تحریروں اور نظریات میں عورت ہمیشہ ایک “Passive” اور پرامن، فرماں بردار کردار کے طور پر رہی، جبکہ مرزا ہادی رسوا نے “امراؤجان ادا” لکھ کر عورت کی تھوڑی بہت حیثیت اور مجبوری کو اجاگر کیا۔

سعادت حسن منٹو کے افسانوں میں پدری نظام میں مرد کی مطلق العنان طاقت کے مقابل نسائی وجود کی بے بسی، شکست اور پسپائی پر احتجاج اور مزاحمت نظر آتی ہے۔ جبکہ اس کے کردار کسی قسم کی بغاوت کرتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ وہ مرد اور عورت میں بطور انسان اور مقام و مرتبہ کے کوئی فرق نہیں سمجھتا اور دونوں کو برابر سمجھتا ہے۔ معاشرہ خود ایک عورت کو طوائف بننے پر مجبور کرتا ہے۔ اس کے لیے منٹو کا افسانہ “لائسنس” ایک بہت خوبصورت مثال ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار نیستی چیخ چیخ کر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کے معاشرے کے لوگوں نے ہی اسے طوائف کا لائسنس حاصل کرنے پر مجبور کیا۔ منٹو طوائفوں کی برباد کر دینے والی اس پُر آشوب زندگی کے خرابوں میں ان کے خلوص، مامتا، محبت، قربانی، معصومیت اور ہمدردی جیسے انمول گوہر ہمارے سامنے لاتا ہے۔ منٹو ہی وہ واحد “Person” تھا کہ جس نے عورت کی ساکھ کو بحال کرنے کی کوشش کی، منٹو کی عورت، ماں، بیٹی، سہیلی، محبوبہ، بیوی، بوڑھی، جوان، کنواری، مطلقہ، بیوہ، قاتل، مغویہ، بےوفا، مفکر، ظالم، بےبس، ادیب، فاحشہ، طوائف، شہوت پرست، گھریلو، آوارہ، شاطر، سیاسی کارکن، دفتری ورکر، وغیرہ کے روپ میں سامنے آتی ہے۔

منٹو، ڈپٹی نذیر کی طرح واعظانہ و ناصحانہ انداز اختیار نہیں کرتا، بلکہ جرات پسندانہ اور دلیرانہ انداز اختیار کرتا ہے، اور اس کے حاسدین اسے فحش نگار کا خطاب دلوانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔

بلکہ منٹو کے حاسدین خود ننگی سوچ کے مالک ہیں۔ منٹو کہتا ہے کہ ایک آرٹ گیلری میں کافی ساری عریاں تصاویر تھیں، ایک تصویر کا کوئی خاص حصہ تھوڑا سا عریاں کرکے چھوڑ دیا گیا کہ لوگ تصوراتی طور پر اسے خود عریاں کرکے دیکھ سکیں۔ اور لوگوں نے اسی تصویر کو فحش قرار دے دیا۔ فحش نگار منٹو نہیں تھا بلکہ اس کے حاسدین اور ان کی سوچ فحش تھی۔ “ٹھنڈا گوشت” پر مقدمہ چلا تو جج صاحب نے کہا کہ آرٹ کبھی بھی فحش نہیں ہوتا، آرٹ کی کئی ایک صورتیں ہوسکتی ہیں۔ منٹو کی یہ تحریر بھی ایک آرٹ ہی ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ اس پر کسی مزید سماعت کی ضرورت ہے۔

جج صاحب نے یقینی طور پر بجا فرمایا ہوگا کہ آرٹ کبھی بھی فحش نہیں ہوتا۔ ہمارا تھیٹر بھی تو آرٹ کی ہی ایک صورت ہے۔ ایک وقت تھا کہ ہم “Family” کے ساتھ تھیٹر کا رخ کیا کرتے تھے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تھیٹر کی روایات یکسر بدل چکی ہیں، اور لوگ “Family” کے ساتھ تھیٹر کا رخ کرنے سے کترانے لگ گئے ہیں۔ آج کہانی پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی شاید ہمارے پاس کہانیاں ختم ہو چکی ہیں۔ آج کا تھیٹر ہندوستان میں انگریز کی سرپرستی میں قائم کیے گئے چکلوں کی روایت کو مضبوط کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر رہا۔ بہت خوش آئند بات ہے کہ حال ہی میں UNESCD نے لاہور کو “سٹی آف لٹریچر” کا خطاب دیا ہے۔ یقینی طور پر لٹریچر اور آرٹ کا بھی کوئی تعلق ہوگا۔

تحریر امتیازاحمد کالم نویس افسانہ نگار
عورت، روایت اور تھیٹر 1
[email protected]