غزل

عیاں ہے ہر طرف عالمِ میں حسنِ بے حجاب اس کا
بغیر از دیدۂ حیراں، نہیں جگ میں نقاب اس کا
ہوا ہے مجھ پہ شمعِ بزمِ یک رنگی سے یو روشن
کہ ہر ذرہ اوپر تاباں ہے دائم آفتاب اس کا
کرے عُشاق کوں،جوں صورتِ تصویر،حیرت سو ں
اگر پردے سوں وا ہووے جمال بے خواب اس کا
سجن نے یک نظر دیکھا نگاہِ مست سوں جس کوں
خرابات دو عالم میں،سدا ہے دو خراب اس کا
مرا دل پاک ہے از بس وؔلی! زنگ کدورت سوں
ہوا جیوں جوہر آئینہ مخفی پیچ و تاب اس کا

تشریح

پہلا شعر

عیاں ہے ہر طرف عالمِ میں حسنِ بے حجاب اس کا
بغیر از دیدۂ حیراں، نہیں جگ میں نقاب اس کا

شاعر غزل کے مطلع میں کہتا ہے کہ محبوب حقیقی یعنی خُدا کا حسن دنیا میں ہر طرف ظاہر ہے۔ کوئی پردہ نہیں ہے۔ اگر کوئی پردہ ہے تو وہ ہماری حیران آنکھوں کا پردہ ہے کہ جو اس کو دیکھ نہیں پاتیں۔ عابد پیشاوری کا ایک شعر ہے؀

ہر ایک ذرّے میں وہ نہاں ہے مگر یہ ہے شرط دید عابد
وہ دیکھ سکتا ہے اس کا جلوہ کہ جس کی آنکھوں میں روشنی ہے

تیسرا شعر

کرے عُشاق کوں،جوں صورتِ تصویر،حیرت سو ں
اگر پردے سوں وا ہووے جمال بے خواب اس کا

شاعر کہتا ہے کہ اس کا حسن بے حجاب ہے مگر اس کو ہم دیکھ نہیں سکتے۔اگر اس کا وہ بے حجاب حسن کا پردہ کھل جائے تو وہ عشاق یعنی عاشقوں کو اس قدر حیرت زدہ کر دے کہ وہ تصویر ہو جائیں۔

چوتھا شعر

سجن نے یک نظر دیکھا نگاہِ مست سوں جس کوں
خرابات دو عالم میں،سدا ہے دو خراب اس کا

شاعر کہتا ہے کہ محبوب جسے ایک بار اپنی مست آنکھوں سے دیکھ لے پھر وہ اس عالم کے حرابات یعنی مے خانے میں ہمیشہ خراب حال رہے گا۔

پانچواں شعر

مرا دل پاک ہے از بس وؔلی! زنگ کدورت سوں
ہوا جیوں جوہر آئینہ مخفی پیچ و تاب اس کا

پرانے زمانے میں لوہے کے آئینے ہوتے تھے۔ان پر زنگ بھی لگتی تھی۔رگڑ رگڑ کر انھیں صاف کیا جاتا تھا اور تب تک رگڑتے تھے کہ جب تک ان میں وہ گول دائرے نظر نہیں آتے تھے۔جس کو شاعر پیچ و تاب کہتا ہے۔چوں کہ دل کو آئینے سے تشبیہ دی جاتی ہے۔اب شاعر کہتا ہے کہ جس طرح آئینے کا کمال اس کے پیچ و تاب میں ہے،اسی طرح میرے دل کا آئینہ بھی نفرت کے زنگ سے پاک ہے۔گویا یہ آئینہ زنگ آلودہ نہیں ہے۔