غالب جدید شعرا کی ایک مجلس میں کا خلاصہ:

0
  • باب نمبر 08:طنز و مزاح
  • مصنف کا نام:کنھیا لال کپور
  • سبق کا نام: غالب جدید شعراء کی ایک مجلس میں

”غالب جدید شعرا کی ایک مجلس میں“ کا خلاصہ:

غالب جدید شعرا کی مجلس میں “کنھیا لال کپور” کا طنز ومزاح سے بھر پور مضمون ہے۔جدید شعرا کی مجلس ہورہی ہے اس مجلس میں اس وقت کے تمام جلیل القدر شعرا موجود ہیں اور غالب کا انتظار کیا جا رہا ہے یہاں ہیرا جی،ڈاکٹر قربان حسین خالص،م ن ارشد،بکرما جیت ورما وغیرہ جیسے شعرا موجود تھے۔

غالب یہاں پر موجود ہیں اور ان کا حلیہ ہوبہو حالی کے یادگار غالب میں بیان کیے گئے حلیے کے مطابق ہے۔ان کے ہاتھ میں دیوان غالب کا ایک نسخہ بھی موجود ہے۔یہ پوری کہانی ایک مکالمے کی صورت میں بیان کی گئی ہے۔جہاں غالب سب کے اس دعوت نامے کے لئے شکر گزار ہیں۔کہ وہ مدت سے اس آرزو میں تھے کہ جدید شعرا سے ملاقات کا شرف پا سکیں۔

جدید شعراء غالب سے جنت کے معاملات کے بارے میں معلوم کرتے ہیں جس پر غا لب کا کہنا ہے کہ ہم کو معلوم نہیں جنت کی حقیقت لیکن۔ایک شاعر غالب سے جنت میں اقبال کا حال دریافت کرتے ہیں تو وہ انہیں بتاتے ہیں کہ اقبال کا وہاں بھی وہی حال ہے اور وہ خدا سے شکوہ کناں ہیں۔ مجلس میں کرسئ صدارت کے لئے م ن ارشد کا نام تجویز کیا جاتا ہے۔مجلس کی ابتدا مرزا کے کلام سے کی جانی ہے مگر مرزا غالب بضد ہیں کہ انہیں یہاں شمع درکار ہے۔مگر یہ چونکہ جدید دور کی مجلس ہے اس لئے یہاں شمع کی بجائے لیمپ موجود ہے۔

غالب کی شاعری پڑھنے پر یہاں داد و تحسین کا انداز بھی پہلے کا سا نہیں ہے۔م ن ارشد کی نظم کو صدی کی بہترین نظم کا درجہ دیا گیا۔اس نظم کا عنوان “بدلہ” ہے۔اس میں بھوت،دفتر اور تہذیب وتمدن جیسے معاملات کا بیان ہے۔جب کہ غالب کے مطابق یہ نظم ان کے فہم سے بالاتر ہے۔ڈاکٹر خالص کی نظم کا عنوان عشق غالب اس نظم کو بھی شاعری کی بجائے نثر قرار دیتے کہ یہ کس طرح کی نظم ہے کہ جس میں نہ قافیہ کی موجودگی ہے اور نہ ردیف کی پابندی ہے۔

اس پر ڈاکٹر خالص غالب کو جدید شاعری کی خصوصیات سے آگاہ کرتے ہیں۔غالب نے قافیہ ردیف ترک کرنے کی وجہ پوچھی تو رفیق احمد خوگر نے ان کو بتایا کہ اس کی وجہ ہمارا فطری میلان ہے۔جو زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح شعر وادب میں بھی آزادی کا جویا ہے۔جدید دور کے باعث ماحول کی تبدیلی کا اثر ادب پر بھی ہوا ہے۔م ن ارشد نے اس کی وضاحت کی کہ یہ ریڈیو،ہوائی جہاز اور بم دھماکے پھٹنے کی ایک نئی دنیا ہے اس دنیا میں ہم اپنا وقت عشق و بلبل کی باتوں میں ضائع نہیں کر سکتے ہیں۔بکرما جیت ورما اپنی جو شاعری اس مجلس میں پیش کرتے ہیں غالب اسے گیت قرار دیتے ہیں جس پر بکرما جی کا کینا ہے کہ غالب کے دور میں گیت شاعری کی باقاعدہ قسم نہ تھی۔بلاآخر غالب تنگ آکر اس مجلس سے بھاگ جاتے ہیں۔

سوالات:

سوال نمبر 1:غالب نے پہلا شعر کون سا سنایا اور کیا کہہ کر اس کا مذاق اڑایا گیا؟

غالب نے پہلا شعر یہ سنایا:خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے۔
اس پر ان کا مذاق یوں اڑایا گیا کہ اگر مطلب ہی نہیں تو خط لکھنے کا فائدہ کیا۔تین پیسے ضائع کر کے خط لکھنے کا کیا فائدہ اس سے بہتر سادہ صفحے پر لکھ لیتے۔

سوال نمبر 2:م ن ارشد کی نظم پر ہیرا جی نے کیا تبصرہ کیا؟

ہیرا جی نے یہ کہا کہ یہ نظم اس صدی کی بہترین نظم ہے بلکہ میں کہوں گا کہ اگر ایک طرح سے دیکھا جائے تو اس میں انگھیٹی بھوت اور دفتر ، تہذیب و تمدن کی مخصوص الجھنوں کے حامل ہے۔

سوال نمبر 3:ڈاکٹر خالص نے جدید شاعری کی کیا خصوصیات بتائی ہیں؟

ڈاکٹر خالص کے مطابق جدید شاعری رفعت تخیل، تازگی افکار اور ندرت فکر سے مزین ہوتی ہے۔

سوال نمبر 4:بکرما جیت ورما نے جو کلام سنایا اس کا تعلق کس صنف سے ہے؟

بکرما جیت ورما نے جو کلام سنایا اس کی صنف “گیت” تھی۔

عملی کام:

اس مضمون میں شامل پانچ شعراء کے اصل نام لکھیے۔

اس مضمون میں شامل شعراء کے اصل نام یہ ہیں۔

م ن ارشد (ن م راشد)
راجہ مہر علی خان(راجہ مہدی علی خان)
بکرما جیت ورما(اندر جیت ورما)
غیظ احمد غیظ(فیض احمد فیض)
ڈاکٹر قربان حسین خالص(تصدق حسین خالد)
ہیرا جی(میرا جی)