خط “میر مہدی مجروح کے نام” اور ” منشی ہہر گوپال تفتہ کے نام”

0
  • سبق نمبر 08: مکتوب نگاری
  • مصنف کا نام:- مرزا غالب
  • سبق کا نام:- خط “میر مہدی مجروح کے نام” اور ” منشی ہہر گوپال تفتہ کے نام”

خلاصہ:

غالب کا یہ خط بنام”میر مہدی مجروح” ہے۔غالب نے اس خط میں مکالمے کے انداز کو اپناتے ہوئے میرن صاحب کو مخاطب کیا ہے اور ان سے میر مہدی کی خبر گیری کی۔میرن نے غالب کو مجروح کی صحت کے متعلق بتایا کہ اب وہ تندرست ہوگئے ہیں۔ ان کا بخار جاتا رہا ہے۔ صرف پیچش باقی ہیں وہ بھی رفع ہو جائے گی۔ غالب نے میرن سے ان کے خط نہ لکھنے کا معاملہ دریافت کیا تو میرن نے اس کی وضاحت کچھ یوں بیان کی کہ غالب کو مجروح کو خط لکھنے سے باز رکھنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی غیر موجودگی میں غالب کا خط جائے اور وہ اس کو پڑھے جاتے وقت اس کا حظ نہ اٹھا سکیں۔ آخر کار غالب نے مجروح کو خط لکھ کر ان کا احوال دریافت کر نے کے ساتھ انھیں ضروری احتیاط کرنے کا بھی کہا اور کہا کہ وہ اپنی صحت کا احوال انھیں لکھتے رہیں اور ساتھ اپنے طرف کے موسم کی صورتحال کو بھی بیان کیا اور بتایا کہ بوندا باندی تھمنے کے بعد ان کو یہ خط پوسٹ کیا جائے گا۔ اس خط میں غالب کی خطوط نگاری کے تمام جوہر ان کے مزاح اور مکالمہ کا وصف بھی موجود ہے۔

سوالات:

سوال نمبر 01: غالب نے میرن صاحب سے میر مہدی کے خط کا جواب لکھنے کی اجازت کیوں چاہی؟

میر مہدی کی طبیعت ناساز تھی جس کے باعث غالب نے میرن صاحب سے اجازت طلب کی کہ کیا اب میں مہدی کو خط لکھ لوں۔

سوال نمبر 02:میرن صاحب نے غالب کو مجروح کی صحت کے بارے میں کیا بتایا؟

میرن نے غالب کو مجروح کی صحت کے متعلق بتایا کہ اب وہ تندرست ہوگئے ہیں۔ ان کا بخار جاتا رہا ہے۔ صرف پیچش باقی ہیں وہ بھی رفع ہو جائے گی۔

سوال نمبر 03:میرن صاحب نے غالب کو مجروح کے نام خط لکھنے سے کیوں باز رکھا تھا؟

میرن صاحب نے غالب کو مجروح کو خط لکھنے سے باز نہیں رکھا بلکہ یہ کہا کہ میں آپ کی طرف سے ہر خط میں لکھ دیا کرتا ہوں۔ آپ کو اس لیے منع کرتا تھا کہ آپ کو زحمت ہوگی۔ غالب کو مجروح کو خط لکھنے سے باز رکھنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی غیر موجودگی میں غالب کا خط جائے اور وہ اس کو پڑھے جاتے وقت اس کا حظ نہ اٹھا سکیں۔

زبان وقواعد:-

اس خط میں ان الفاظ کی نشاندہی کیجیےجو ایک دوسرے کو خطاب کرنے کے لئے استعمال ہوئے ہیں۔

اس خط میں تخاطب و القاب کے طور پر اے جناب، حضرت، صاحب،حضور،میاں،بھائی اور سنو جیسے الفاظ کو تخاطب کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔

اس خط میں آئے محاوروں کو تلاش کیجیے اور انھیں اپنے جملوں میں استعمال کیجیے۔

ہوش کی خبر اس کے سر پر جب اچانک افتاد آپڑی تو اس نے ہوش کی خبر لی۔

عملی کام:

غالب کے انداز میں اپنے دوست کے نام ایک خط تحریر کیجیے جس میں اپنی موجودہ مصروفیات اور مستقبل کے عزائم کا ذکر ہو۔

بنام انعام الحق غازی۔
کیوں صاحب کیسے ہو؟ کافی عرصے سے تمھاری کوئی خیر خبر نہ پائی۔ آج طبیعت مچلی تو تم کو خط لکھ ڈالا۔حالیہ نوکری نے مجھے کس قدر مصروف تکھا ہوا ہے کہ مت پوچھو۔ مستقبل کی فکر کرتے ہوئے مجھے اب یہ خیال سمایا ہے کہ اس نوکری سے بہتر اپنا کاروبار جما لیا جائے۔ نہ تو اس میں کسی کی چاکرء رہے گی اور نہ بے وقت کی پریشانی۔ ہاں مگر کاروبار کی دیکھ بھال بھی کسی اولاد سے کم نہیں کہ انتہائی نگہداشت کے بعد ہی جا کر پروان چڑھے۔
میاں تم بھی کبھی اپنی مصروفیت کا احوال لکھ ڈالو۔اور نہیں تو اپنی خیریت سے ہی مطلع کر دو۔خط چاہے بیرنگ ہی کیوں نہ ہو۔
مہرین
بدھ،10فروری 2022ء

خط نمبر 02: بنام منشی ہرگوپال تفتہ

خلاصہ:-

مرزا غالب نے یہ خط منشی ہرگوپال تفتہ کے نام کچھ شکایتی انداز میں تحریر کیا ہے اور کافی دنوں سے ان کا خط نہ پا کر غالب نے تفتہ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ کافی عرصے سے تمھارا کوئی خط نہیں آیا خط نہ آنے کی وجہ یہ تو نہیں کہ تم مجھ سے روٹھے ہوئے ہو اگر ایسا ہے تو تم کب راضی ہو گے اور اگر تم نے مجھ سے روٹھے ہی رہنا ہے تو کم سے کم روٹھنے کی وجہ تو لکھ دو یعنی کسی بہانے خط لکھو۔اور ساتھ ہی اپنے دن بھر کا احوال اور چطوں کے متعلق لکھا کہ میں اس تنہائی میں بس خطوں کے سہارے جی رہا ہوں۔کسی خط کا آنا میرے لیے گویا اس شخص کے آنے جیسا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب انھیں کوئی خط نہ آئے۔ روزانہ ادھر ادھر سے دو چار خط موسول ہوجاتے ہیں اور انھیں پڑھنے اور جواب تحریر کرنے میں دن بسر ہوجاتا ہے اور یہی ان کی دل لگی کا سامان بھی ہو جاتا ہے۔ غالب کا یہ خط بھی ان کی مکتوب نگاری کی اعلی مثال ہے۔

سوالات:

سوال نمبر 01: غالب نے خط کے آغاز میں یہ کیوں لکھا ہے کہ “روٹھے ہی رہو گے یا کبھی منو گے بھی”؟

غالب کے لیے خط کا آنا یوں تھا کہ گویا وہ شخص خود تشریف لایا ہو۔کافی دن سے تفتہ کا خط نہ پا کر انھیں گمان ہوا کہ ہوسکتا وہ روٹھے نہ ہوں جبھی ان کا کوئی خط نہیں آیا۔ اس جملے کے لکھنے سے غالب کی مراد تھی کہ گویا وہ انھیں کوئی خط لکھیں گے کہ یونہی روٹھے رہیں گے۔

سوال نمبر 02: خطوں کو غالب نے اپنی دل لگی کا سامان کیوں کہا ہے؟

دن بھر خطوں کو پڑھنے اور ان کا جواب لکھ کر ارسال کرنے میں غالب کا دن اچھا کٹ جاتا ہے اور اس کام میں ان کا دل بہلتا ہے ان کے لئے یہ سب ایسا تھا کہ گویا وہ شخص ان کے پاس موجود ہو اس لیے غالب نے خطوں کو دل لگی کا سامان کہا۔

سوال نمبر 03: غالب نے خط بیرنگ بھیجنے کی بات کیوں کہی ہے؟

غالب نے یہ بات اس لیے کہی کہ اگر تم پیسہ بچانے یا کنجوسی کہ وجہ سے خط روانہ نہیں کررہے تو بغیر ڈاک ٹکٹ کے یعنی بیرنگ خط ہی ارسال کردو۔

زبان وقواعد:

نیچے لکھے ہوئے جملوں کی وضاحت کیجیے۔

کیوں صاحب روٹھے ہی رہو گے یا کبھی منو گے بھی؟ اگر کسی طرح نہیں منتے تو روٹھنے کی وجہ تو لکھو۔

غالب نے تفتہ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ کافی عرصے سے تمھارا کوئی خط نہیں آیا خط نہ آنے کی وجہ یہ تو نہیں کہ تم مجھ سے روٹھے ہوئے ہو اگر ایسا ہے تو تم کب راضی ہو گے اور اگر تم نے مجھ سے روٹھے ہی رہنا ہے تو کم سے کم روٹھنے کی وجہ تو لکھ دو یعنی کسی بہانے خط لکھو۔

خدا کا احسان ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا جو اطراف و جوانب سے دو چار خط نہیں آ رہتے ہوں۔ ایک دو صبح کو ایک دو شام کو،میری دل لگی ہو جاتی ہے۔

غالب کے لیے خط یوں ہی تھا کہ جس شخص کا خط آیا ہوا ہے وہ ان کے سامنے موجود ہو تو وہ لکھتے ہیں کہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب انھیں کوئی خط نہ آئے۔ روزانہ ادھر ادھر سے دو چار خط موسول ہوجاتے ہیں اور انھیں پڑھنے اور جواب تحریر کرنے میں دن بسر ہوجاتا ہے اور یہی ان کی دل لگی کا سامان بھی ہو جاتا ہے۔