غامدیت پرایک مکالمہ (قسط دوم)

0
از قلم ابو عمر غلام مجتبیٰ قادری

ٹرین اپنی مخصوص رفتار سے چھک چھک کرتی ہوئے جانبِ حیدرآباد رواں دواں تھی مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ میری باتیں ان پر بہت زیادہ اثر کر چکی ہیں شاید اسی لیے اب وہ مجھ سے مزید گفتگو کرنے سے گریز کر رہے تھے۔ تقریباََ 5 منٹ بعد ہی چائے والا آیا تو میں نے تین کپ چائے منگوا کر ان دونوں کو بھی دی اور پھر خود ہی گفتگو کا آغاز بھی کیا۔
اسلام میں لفظِ سنت کی اہمیت و افادیت کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں غامدی صاحب سنت کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

انہوں نے جب دیکھا کہ گفتگو کا پہلو تبدیل ہوا ہے تو وہ شاملِ گفتگو ہوگئے اور غامدی صاحب کی کتاب اپنے موبائل میں نکال کر کہا کہ دیکھیں قرآن پاک میں ہے؛
ثُمَّ اَوۡحَيۡنَاۤ اِلَيۡكَ اَنِ اتَّبِعۡ مِلَّةَ اِبۡرٰهِيۡمَ حَنِيۡفًا‌ ؕ وَمَا كَانَ مِنَ الۡمُشۡرِكِيۡن)
پھر ہم نے تمھیں وحی کی کہ ملت ابراہیم کی پیروی کرو جو بالکل یک سو تھا اورمشرکوں میں سے نہیں تھا۔‘‘

اس ذریعے سے جو دین ہمیں ملا ہے ،وہ یہ ہے:
۱۔اللہ کا نام لے کر اور دائیں ہاتھ سے کھانا پینا۔ ۲۔ملاقات کے موقع پر’ السلام علیکم‘ اور اس کا جواب۔ ۳۔چھینک آنے پر ’الحمد للہ ‘ اور اس کے جواب میں ’یرحمک اللہ‘۔ ۴۔نومولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت۔ ۵۔مونچھیں پست رکھنا۔ ۶۔ زیر ناف کے بال مونڈنا۔ ۷۔بغل کے بال صاف کرنا۔ ۸۔ لڑکوں کا ختنہ کرنا۔ ۹۔بڑھے ہوئے ناخن کاٹنا۔ ۱۰۔ناک ،منہ اور دانتوں کی صفائی۔ ۱۱۔استنجا۔ ۱۲۔حیض و نفاس میں زن و شو کے تعلق سے اجتناب۔ ۱۳۔حیض و نفاس کے بعد غسل۔ ۱۴۔غسل جنابت۔ ۱۵۔میت کا غسل۔ ۱۶۔تجہیز و تکفین۔ ۱۷۔تدفین۔ ۱۸۔عید الفطر۔ ۱۹۔عید الاضحی۔ ۲۰۔اللہ کا نام لے کر جانوروں کا تذکیہ۔ ۲۱۔نکاح و طلاق اور ان کے متعلقات۔ ۲۲۔زکوٰۃ اور اس کے متعلقات۔ ۲۳۔نماز اور اس کے متعلقات۔ ۲۴۔روزہ اور صدقہ فطر۔ ۲۵۔اعتکاف۔ ۲۶۔قربانی۔ ۲۷۔حج وعمرہ اور ان کے متعلقات۔

پھر کتاب میزان میں جو غامدی صاحب نے سنت کی تعریف کی وہ بھی دکھا دی کہ
’’سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی ﷺ نے اس کی تجدید و اصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے ۔
کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ غامدی صاحب نے کس طرح اپنی طرف سے سنت کی تعریف گھڑ کے احادیث کی حجت اور دلیلِ شرعی ہونے کو مشکوک بنا دیا ہے اس لیے ان کی تفصیلی گفتگو تحمل سے سنتا رہا اور وہ دل ہی دل میں پھولے نہیں سما رہے تھے کہ مولوی نے یہ موضوعِ گفگتو چُن کر ہمارے لیے آسانی کر دی، بہرکیف جب ان لوگوں کی گفتگو مکمل ہوئی تو میں نے پوچھا کہ
اس کا مطلب کہ سنت صرف دین ابراہیمی کی روایات ہی ہیں جن کو نبی اکرم صلی الله عليه وسلم نے رائج فرمایا؟
جی ایسا ہی ہے۔

دوست اس سے پہلے کہ میں سنت کی اس تعریف پر اعتراض کروں اور اس کی وجہ سے جن ضروریاتِ دین کا انکار لازم آتا ہے ان کی نشاندہی کروں کیا آپ مجھے یہ بتانا پسند کریں گے کہ غامدی صاحب نے جو یہ ستائیس سنتیں بیان کی ہیں ان سب کو کسی بھی کتاب یا بیان میں میں دین ابراہیمی تک صحیح روایات سے ثابت کیا ہے یا نہیں ؟
ان کا جواب نفی ہی میں تھا ۔
مزید کہا کہ
غامدی صاحب کیلیے فقط ان ستائیس سنتوں کا صحیح روایات سے حضرت ابراہیم علیہ السلام تک ثبوت نہیں بلکہ یا تو صحابہ کرام کے اجماع اور تواتر سے ثابت کرنا ضروری ہے جیسا کہ و ہ خود اپنی کتاب میزان میں کہتے ہیں کہ میں نے ٹیبلیٹ میں کتاب کھولی صفحہ نمبر دس غامدی صاحب لکھتے ہیں کہ
سنت یہی ہے اور اس کے بارے میں یہ بالکل قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے اس میں اور قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ جس طرح صحابہ کے اجماع اور قولی تواتر سے ملا ہے،یہ اسی طرح ان کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے اور قرآ ن ہی کی طرح ہر دور میں امت کے اجماع سے ثابت قرار پائی ہے، لہٰذا اس کے بارے میں اب کسی بحث و نزاع کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے۔ دین لاریب، انھی دو صورتوں میں ہے۔ ان کے علاوہ کوئی چیز دین ہے اور نہ اسے دین قرار دیا جا سکتا ہے ۔‘‘

جنابِ من دیکھ لیا آپ نے کہ جو چیز یا تو اجماعِ صحابہ سے تا متواتراً صحابہ سے منقول ہوتب وہ سنت بنے گی اس کا مطلب ہے کہ یا
غامدی صاحب کے نزدیک یہ ستائیس افعال یا تو اجماع صحابہ کرام علیہم الرضوان سے ثابت ہیں یا پھر کم سے کم متواترا نقل ہیں ۔ اگر ایسا ہے تو کسی کتاب میں انہوں نے ان کا اجماع یا تواتر بیان کیا ہے؟
کہنے لگے میری معلومات میں نہیں ہے
اجماع اور متواتر کا مطلب آپ کو پتا ہی ہوگا ؟
اجماع کا مطلب تمام کے تمام صحابہ کا اتفاق ثابت کرنا،
اور تواتر کا مطلب ہر زمانے میں اتنے کثیر افراد بیان کرنے والے ہوں کہ ان کا سب کا جھوٹ بولنا ناممکن ہو ۔
تو اب ان ستائیس میں سے ہر ایک سنت کو اجماع یا تواتر سے نا کبھی غامدی صاحب نے ثابت ہے اور نا کبھی ثابت کر سکتے ہیں!
مزید میں نے کہا کہ دوسری بات کہ جب سنت کا ثبوت اجماعِ صحابہ یا متواتر طریقے سے ہونا چاہیے تو جو سنت کی تعریف ہے وہ تو بدرجہ اولیٰ و اتم اجماع صحابہ اور تواتر سے ہونی چاہیے کیا غامد صاحب یہ تعریف تمام کے تمام صحابہ سے ثابت کر پائینگے؟

میرے دوست سنت کی تعریف میں جو آیت غامدی صاحب نے پیش کی ہے اس کا صاف اور سیدھا مطلب نکلتا ہے کہ سنت وہی ہے جو الله پاک نے اپنے حبیب کی طرف ملتِ ابراہیمی میں سے وحی کی،
چلیں تمام نا سہی کم سے کم ہر زمانے میں اتنے کثیر افراد سے ثابت کر دیں کہ جن کا جھوٹ پر متفق ہونا محال ہو!
ان دونوں کو جیسے ایک بار پھر سکتہ طاری ہوگیا ہو ۔
مجھے بتائیں کہ کیا یہ ستائیس سنن جو غامدی صاحب نے پیش کی ہیں، کیا وہ تمام کی تمام وحی الہی سے ثابت کر پائینگے؟ ؟
یا وہ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ ستائیس سنتیں وحی سے ثابت نہیں ہیں؟

ٹرین حیدرآباد اسٹیشن کے قریب پہنچ چکی تھی وہسل بج رہا تھا اور اس کے ساتھ ہی ان دونوں کے دل میں بھی ان کے گمان کے مطابق خطرے کی گھنٹیاں بج رہی تھی،
اسٹیشن پر ٹرین رکی تو میں نے پھر کہا کہ نماز پڑھ کر آتا ہوں اسی تعریف کی خطرناکیاں عرض کرتا ہوں،
نماز ادا کرنے کے بعد جب میں واپس اپنی برتھ پر پہنچا تو وہ دونوں غامدی صاحب ہی کا تذکرہ کر رہے تھے لیکن مجھے دیکھ کر خاموش ہوگئے، ٹرین حیدرآباد سے روانا ہوچکی تھی آہستا آہستا رفتار بڑھ رہی تھی ساتھ ساتھ ٹرین کے چلنے کی مخصوص آواز میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا،
میں نے اپنی بات کا تسلسل برقرار رکھنے کیلیے وہیں سے کلام شروع کیا کہ
مجھے بتائیں کہ اگر کسی بھی مسلمان سے سوال کیا جائے کہ اسلام میں سنت سے مراد کیا ہے؟

تو وہ کیا جواب دےگا ؟ سنتِ محمّدیہ یا سنتِ ابراہیمی؟
ان کو مجبوراً ہی سہی کہنا پڑا کہ سنتِ محمدیہ ﷺ
میں نے جواباً کہا بالکل اس کا مطلب ہے کہ اسلام میں لفظ سنت تمام مسلمانوں کے نزدیک ہمارے نبی کریم صلی الله عليه وسلم کے قول فعل اور تقریر پر بولا جاتا ہے جیساکہ اہلسنت کی تمام کتب میں سنت کی تعریف منقول ہے
(قارئین کیلیے تقریر کی تعریف پیش کرنا ضروری ہے تقریر کا مطلب آپ صلی الله عليه وسلم کے سامنے کوئی عمل کیا جائے تو اس پر آپ صلی الله عليه وسلم نا روکیں نا منع کریں بلکہ اس پر دلالۃً رضامندی ثابت ہو)

مَا صَدَرَ عَنْ النَّبِيِّ – عَلَيْهِ السَّلَامُ – غَيْرُ الْقُرْآنِ مِنْ قَوْلٍ أَوْ فِعْلٍ أَوْ تَقْرِيرٍ
[التفتازاني، شرح التلويح على التوضيح ]
جو نبی اکرم نور مجسم صلی الله عليه وسلم سے قرآن کے علاوہ قول، فعل یا تقریر ثابت ہو اسے سنت کہا جاتا ہے،
لہذا یہی واضح ہے کہ سنت سے مراد سنت محمدی ﷺ ہے نا کہ سنتِ ابراہیمی،
رہی بات غامدی صاحب کی پیش کردہ آیت تو اس سے میں ملتِ ابراہیمی سے مراد دین کی اساسی تعلیمات مراد ہیں یعنی الله تعالیٰ کی ذات میں کسی کو شریک نا کرنا (توحید) اور الله پاک کا حد درجے کا مطیع و فرمانبردار رہنا کیونکہ قرآن میں متعدد مقامات پر ملتِ ابراہیم کا لفظ آیا ہے ملتِ ابراہیم کا مفہوم ہی یہی بیان ہوا کہ شرک سے پاک ملت ہے آپ اسی آیت کو دیکھیں کہ آخر میں ملۃ ابراہیم کی وضاحت کیا فرمائی ہے ؟
سورت النحل
ثُمَّ اَوۡحَيۡنَاۤ اِلَيۡكَ اَنِ اتَّبِعۡ مِلَّةَ اِبۡرٰهِيۡمَ حَنِيۡفًا‌ ؕ وَمَا كَانَ مِنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ ۞
ترجمہ:
پھر ہم نے آپ کی طرف یہ وحی کی کہ آپ ملت ابراہیم کی پیروی کریں جو باطل سے دور تھے اور وہ مشرکین میں سے نہ تھے۔
اسی طرح سورہ انعام میں فرمایا
سورۃ الأنعام آیت نمبر 161
قُلۡ اِنَّنِىۡ هَدٰٮنِىۡ رَبِّىۡۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍۚ دِيۡنًا قِيَمًا مِّلَّةَ اِبۡرٰهِيۡمَ حَنِيۡفًا‌ ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ ۞

ترجمہ:

آپ کہیے بیشک میرے رب نے مجھے صراط مستقیم کی ہدایت فرمائی ہے، مستحکم دین، ملت ابراہیم ہر باطل سے ممتاز، اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔
اسی طرح سورہ آل عمران میں فرمایا (سورۃ آل عمران آیت نمبر 95)
قُلۡ صَدَقَ اللّٰهُ‌ ۗ فَاتَّبِعُوۡا مِلَّةَ اِبۡرٰهِيۡمَ حَنِيۡفًا ؕ وَمَا كَانَ مِنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ ۞

ترجمہ:

آپ کہیے کہ اللہ نے سچ فرمایا تم ابراہیم کی ملت کی پیروی کرو جو باطل کو چھوڑ کر حق کی طرف رجوع کرنے والے تھے اور وہ مشرکین میں سے نہ تھے۔
لہذا یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ نا تو اصطلاح میں ملتِ ابراہیم سے مراد سنتِ ابراہیم مراد ہے اور نا ہی عرف میں سنت سے مراد سنتِ ابراہیم ہے۔
مجھے آپ یہ بتائیے کہ سنت کا تصور و تعریف جو غامدی صاحب نے بیان کی ہے وہ تعریف کسی اور نے بھی بیان کی ہے یا یہ غامدی صاحب کے ذہن کی اختراع ہے؟
جواب دیتے ہوئے کہا کہ آیت سے استدلال ہے ان کے ذہن کا اختراع نہیں۔
میں نے کہا اگر کل کو کوئی استدلال کرتے ہوئے یہ کہے کہ ’سنت سے میری مراد دین آدم کی وہ روایت ہے…‘ تو یہ بھی جائز ہو گا اور کوئی دوسرا یہ کہے کہ’ سنت سے میری مراددین موسوی کی وہ روایت ہے… ‘ تو یہ بھی جائز ہو گا۔اس طرح ہر آدمی سنت کا اپنا مفہوم لے کر بیٹھا ہو گا۔

اس کا مطلب بالکل واضح کہ جو تعریف سنت کی ہمارے اسلاف بیان کر چکے ہیں اور وہی تعریف ہمارے عرف میں رائج بھی ہے تو تبدیل کر نے کی اجازت ہونی ہی نہیں چاہیے بالخصوص کہ جب وہ اصطلاح ماخذِ دین ہو اور دین کی بنیاد ہی سنت اور حدیث پر ہے۔
جب میں نے دیکھا کہ ان کی خوش فہمی دھویں کی طرح اڑے جا رہی ہے اور وہ ٹکٹکی باندھی مجھے ایسے دیکھ رہے جیسے اور ان کی زبان گُنگ ہو گئی ہو۔

صرف اتنا نہیں کہ غامدی صاحب کا استدلال ہی غلط ہے بلکہ اس سے بے انتہا خرابیاں لازم آتی ہیں
پہلی بات تو آپ یہ سمجھ لیں کہ سنت اور حدیث میں حقیقت میں فرق نہیں کیونکہ اصولیین کے نزدیک
وتطلق سنتہ صلی اللّٰہ علیہ علی الأحادیث المرویة عنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، یعنی آپ صلی الله عليه وسلم کی سنت کا اطلاق ان احادیث پر ہوتا ہے جو آپ ﷺ سے مروی ہیں۔

سنت اور حدیث ایک ہی معنیٰ پر بولے جاتے ہیں، وہ اسطرح کہ سنت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ‘ افعال ‘ تقریرات کا نام ہے۔جبکہ ان تینوں چیزوں کی آپ صلی الله عليه وسلم ‘کی طرف نسبت حدیث کہلاتی ہے۔یعنی آپ صلی الله عليه وسلم کے کسی قول ‘ فعل‘ تقریریا صفت کو جب کوئی صحابی رضی اللہ عنہ اللہ رسول کی طرف منسوب کرتا ہے تو صحابی رضی اللہ عنہ کی آپ صلی الله عليه وسلم‘کی طرف اس نسبت کو حدیث کہتے ہیں۔سنت اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ‘ افعال ‘ تقریرات اور اوصاف کا نام ہے تو حدیث اس کی روایت کا نام ہے۔

اب دیکھیں اگر سنتیں فقط ستائیس بقول غامدی صاحب کے تو باقی سنتوں اور احادیث کا کیا کریں گے ؟
جبکہ آئمہ محدثین کو لاکھوں آحادیث صحیح اسناد کے ساتج بیان کر رہے ہیں جن سے شریعت کے ہزواروں مسائل اخذکیے جاتے ہیں اس سے تو شریعت کا اصل ماخذ کا ہی باب مسدود ہوجائے گا احادیث کے اسی ذخیرے سے سنت کا تعین اور انتخاب ہوتا ہے، اس لیے دین میں سنت کے حجت ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے ماخذ کی حیثیت سے حدیث نبوی بھی حجت کا درجہ رکھتی ہے۔

دوسری تباہ کن بات یہ بھی ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک سنت فقط روایاتِ ابراہیمی کو باقی رکھنے اور خبر دینے کی حد تک سنت کا کردار ہے جبکہ در حقیقت سنت انشا کے درجے میں بہت سے نئے احکام اور قوانین کا اضافہ اور ثبوت بھی کرتی ہے۔
اسی طرح جمہور امت کے نزدیک حدیث و سنت صرف عمل کا فائدہ نہیں دیتی، بلکہ وہ علم کا ماخذ بھی ہے اور ہر دور میں علمائے امت نے حدیث و سنت کے ذخیرے سے عمل میں راہ نمائی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس سے ’’علم‘‘ کے باب میں بھی استفادہ کیا ہے۔ مثلاً عقیدہ کا تعلق خالصتاً ’’علم‘‘ سے ہے اور جمہور امت کے نزدیک جو باتیں عقائد و ایمانیات میں شامل ہیں، ان کی بنیاد صرف قرآن کریم پر ہی نہیں ہے، بلکہ حدیث و سنت کو بھی ایمانیات و عقائد کے تعین اور تعبیر و تشریح دونوں حوالوں سے ماخذ کی حیثیت حاصل ہے۔ اور جس طرح قرآن کریم کے ارشادات ہمارے عقیدہ و ایمان کا حصہ بنتے ہیں، اسی طرح جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات بھی ایمان و عقیدہ کی بنیاد اور اساس ہیں۔

عقیدے کے تعین اور تعبیر کیلیے زمانہِ صحابہ رضوان الله تعالٰی علیہم میں ہی سنت کی طرف رجوع کرتے تھے اس حوالے سے امام مسلم کی روایات پیش کرتا ہوں؛

امام مسلم نے ’’صحیح مسلم‘‘ کی ایک روایت میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ یحییٰ بن یعمر علیہ الرحمہ نے، جو تابعین میں سے ہیں، بیان کیا کہ جب بصرہ میں معبد جہنی نے تقدیر کے انکار کی بات کی تو میں اور حمید بن عبد الرحمن حج یا عمرہ کے لیے روانہ ہوئے اور ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں سے کسی بزرگ کی زیارت نصیب ہو گئی تو ہم ان سے معبد جہنی کے اس عقیدے کے بارے میں دریافت کریں گے۔ ہمیں اس سفر میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہ کی زیارت کا شرف حاصل ہو گیا۔ ہم نے ان سے عرض کیا کہ ہمارے علاقے میں کچھ لوگ ہیں جو قرآن کریم بھی پڑھتے ہیں اور علم کی باتیں بھی خوب کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ تقدیر کوئی چیز نہیں ہے اور دنیا میں جو کام بھی ہوتا ہے، نئے سرے سے ہوتا ہے (یعنی پہلے سے اس کے بارے میں کچھ لکھا ہوا نہیں ہے)۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے اس کے جواب میں فرمایا؛
قَالَ: «فَإِذَا لَقِيتَ أُولَئِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنِّي بَرِيءٌ مِنْهُمْ، وَأَنَّهُمْ بُرَآءُ مِنِّي»، وَالَّذِي يَحْلِفُ بِهِ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ «لَوْ أَنَّ لِأَحَدِهِمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، فَأَنْفَقَهُ مَا قَبِلَ اللهُ مِنْهُ حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ»
کہ جب تم واپس جا کر ایسے لوگوں سے ملو تو انھیں میری طرف سے کہہ دو کہ میں ان سے براء ت کا اعلان کرتا ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں اور وہ جب تک تقدیر پر ایمان نہیں لائیں گے، اگر احد پہاڑ جتنا سونا بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیں تو ان سے وہ ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک طویل حدیث سنائی جس میں ایمانیات کا ذکر کرتے ہوئے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ وتؤمن بالقدر خیرہ و شرہ۔ تم تقدیر پر بھی ایمان لاؤ کہ خیر اور شر سب کچھ اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق ہوتا ہے۔

اسی طرح دوسرا واقعہ بھی امام مسلم نے کتاب الایمان میں ذکر کیا ہے، اس میں ایک اور تابعی بزرگ حضرت یزید الفقیر فرماتے ہیں کہ میں خوارج کے اس عقیدہ سے متاثر تھا کہ جو شخص ایک بار جہنم میں چلا گیا، وہ وہاں سے کبھی نہیں نکلے گا اور شفاعت کوئی چیز نہیں ہے، مگر مجھے ایک مرتبہ بہت سے دوستوں کے ساتھ حج کے لیے جانے کا موقع ملا تو مدینہ منورہ میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کو مسجد نبوی میں دیکھا کہ وہ ایک ستون کے ساتھ ٹیک لگائے لوگوں کو وعظ فرما رہے تھے۔ انھوں نے اپنی گفتگو میں کچھ لوگوں کے جہنم سے نکل کر جنت میں جانے کا ذکر کیا تو میں نے سوال کر دیا کہ حضرت! قرآن کریم تو کہتا ہے کہ ربنا انک من تدخل النار فقد اخزیتہ۔ اے اللہ، جس کو تو نے جہنم میں داخل کیا تو اسے رسوا کر دیا۔ اور قرآن کریم میں ہے کہ کلما ارادوا ان یخرجوا منہا اعیدوا فیہا، جہنم سے جب بھی لوگ نکلنے کا ارادہ کریں گے تو اسی میں لوٹا دیے جائیں گے۔ تو اس کے بعد آپ حضرات یہ کیا کہہ رہے ہیں کہ شفاعت ہوگی اور کچھ لوگوں کو جہنم میں سے نکالا جائے گا؟ حضرت جابر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اس کے جواب میں فرمایا؛

قَالَ: «فَهَلْ سَمِعْتَ بِمَقَامِ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ – يَعْنِي الَّذِي يَبْعَثُهُ اللهُ فِيهِ -؟» قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: «فَإِنَّهُ مَقَامُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَحْمُودُ الَّذِي يُخْرِجُ اللهُ بِهِ مَنْ يُخْرِجُ»،
کہ کیا تم نے قرآن کریم پڑھا ہے؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو فرمایا کہ کیا اس میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ’’مقام محمود‘‘ کا تذکرہ بھی پڑھا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں پڑھا ہے تو اس پر حضرت جابر بن عبد اللہ نے ایک طویل حدیث سنائی جس میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ قیامت کے دن ’’مقام محمود‘‘ میں کھڑے ہو کر شفاعت کریں گے اور ان کی شفاعت پر بے شمار لوگوں کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا، جبکہ وہ آگ میں جل کر کوئلہ ہو چکے ہوں گے۔ یزید الفقیر فرماتے ہیں کہ حضرت جابر سے یہ حدیث سن کر ہم نے آپس میں گفتگو کی اور ایک دوسرے سے کہا کہ تمہارے لیے بربادی ہو، کیا یہ بزرگ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے جھوٹ بول رہے ہیں؟ چنانچہ ایک شخص کے سوا ہم سب رفقاء نے اپنے سابقہ عقیدے سے رجوع کر لیا۔

ان دونوں واقعات پر غور کریں کہ عقیدے کے سوال کے جواب میں صحابہ کرام نے کیا فرمایا؟
ہو سکے تو صحیح مسلم میں انھیں براہ راست بھی دیکھ لیجیے، ان میں عقیدہ کی بات ہے۔ اور ایک واقعہ میں تو اشکال کے لیے قرآن کریم کی دو آیات کا حوالہ دیا گیا ہے، عقیدہ کی وضاحت کے لیے صحابہ کرام سے رجوع کیا گیا ہے، دونوں بزرگوں یعنی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللّہ تعالیٰ عنہ اور حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے عقیدہ کی وضاحت کے لیے حدیث نبوی پیش کی ہے، اور پوچھنے والوں نے اسے کافی سمجھتے ہوئے اپنے عقیدہ کو درست کر لیا ہے۔

اتنی تفصیل کے بعد ہر ذی شعور سمجھ سکتا ہے کہ سنت اور حدیث کے اتنے وسیع اور اساسی ماخذِ دین کو فقط ستائیس سنن تک محدود رکھنا یقینا دین کے سمجھنے اور سمجھانے کے ساتھ بہت بڑی نا انصافی ہوگی جو کہ درحقیقت منکرینِ حدیث کی سوچی سمجھی سازش ہی ہے
گاڑی اپنی منزل یعنی کراچی پہنچنے والی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ ان دونوں نوجوانوں کی سوچ بھی اپنی منزل یعنی حق کو سمجھنے اور قبول کرنے کیلیے تیار ہوچکی تھی جس کا اندازہ مجھے ان کے جانے سے پہلے گرمجوشی کے ساتھ ملنے اور رابطہ نمبر لینے سے ہوا۔۔