غامدیت پر ایک مکالمہ (قسط اول)

0
از قلم ابو عمر غلام مجتبیٰ قادری

ٹرین سکھر اسٹیشن کا پلیٹ فارم چھوڑ چکی تھی آہستہ آہستہ رفتار بڑھ رہی تھی اور کراچی کی جانب رواں دواں تھی میرے ساتھ جو دو لڑکے بیٹھے تھے شاید کسی یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس تھے، ایک نے اپنے موبائل فون پر تیز آواز سے گانے لگائے ہوئے تھے،
میں نے سلام کیا
وعلیکم السلام
میں نے کہا بھائی اگر اس کی آواز کچھ کم کر دیں تو مہربانی ہوگی آپ کی، میں نے انتہائی نرم لہجے میں کہا،
اس نے گانا بالکل بند کر کے کہا کیا میں آپ کی مصروفیات جان سکتا ہوں؟ کافی نا مناسب سے انداز میں اس نے کہا
جی میں مدرسہ میں پڑھاتا ہوں۔
کیا پڑھاتے ہیں آپ؟ درس نظامی ،
اوہ اس کا مطلب آپ عالم ہیں؟
جی میں علماء کا خادم ہوں۔
آپ کے خیال میں گانا سننا یا گانا شرعاً کیسا ہے؟ اچانک اس طرح کے سوال پر میں تھوڑا حیران ہوگیا،
ظاہر سی بات ہے مروجہ گانا حرام ہے۔
اچھا یہی امید تھی آپ سے۔
کیا مطلب آپکا؟
کیا آپ نے جاوید احمد غامدی صاحب کو پڑھا یا سنا ہے؟ جی لیکن زیادہ نہیں،
اسی لیے تو آپ نے فوراََ گانے کو حرام کر دیا، اگر میں آپ سے اس کے حرام ہونے کی دلیل کا مطالبہ کروں تو شاید آپ آئیں بائیں شائیں کرنے لگ جائیں،
میں نے مسکرا کر کہا اچھا تو غامدی صاحب نے آپ کو اس کے جواز کے دلائل سمجھائے ہونگے؟

جی بالکل اور اس کو ناجائز اور حرام کہنا آپ جیسے دقیانوس خیالات رکھنے والے مولوی حضرات ہی کا کام ہے، ورنہ تو صرف غامدی صاحب ہی نہیں سابق امام کعبہ شیخ عادل الکلبانی کا کہنا ہے کہ موسیقی کے آلات اور گانا حرام نہیں ہے۔ اسی طرح کینیڈا میں مقیم مسلم مبلغ اور اسلامک انفارمیشن اینڈ دعویٰ مرکز کے صدر ڈاکٹر شبیر علی کے مطابق، ”قرآن میں موسیقی یا گانے کے حرام ہونے سے متعلق کوئی حکم موجود نہیں ہے جب کہ کسی مصدقہ حدیث میں بھی ایسے کسی حکم کی روایت نہیں ملتی” اس نے فاتحانہ انداز میں کہا بھائی جان سابقہ یا حالیہ امام کعبہ کا صرف قول ہی حکم شریعت نہیں ہوتا، قران و حدیث ، اجماع یا پھر کم سے کم مجتہد کا قول بیان کرتے تو بات میں وزن ہوتا، دوسری بات کہ اگر کسی کو قران یا مصدقہ حدیث میں حکم نہیں ملتا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حکم موجود ہی نہیں ہے، میں نے جان چھڑانے کے انداز میں کہا لیکن وہ لڑکا گلے پڑنے والا تھا۔

دلیل کی بات کرتے ہیں تو دیکھیں ابن ماجہ شریف کی حدیث ہے کہ حضرت عائشہ نے ایک لڑکی کی شادی کی جس کی انصار میں قرابت تھی۔ آپ صلی الله عليه وسلم نے کہا کاش تم ان کے ساتھ کوئی گانے والا بھیجتیں۔ انصار کے ہاں گانے کا رواج ہے۔
دیکھیں خود فرمان رسول صلی الله عليه وسلم ہے کہ گانے والا ہوتا جو گاتا،
اس کی آواز کافی بلند ہو گئی، میں نے ٹیبلیٹ نکالا اور ابن ماجہ کی حدیث سرچ کر کے دکھائی کہ یہ ہے مکمل حدیث مبارک:
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ: أَنْبَأَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ قَالَ: أَنْبَأَنَا الْأَجْلَحُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَنْكَحَتْ عَائِشَةُ ذَاتَ قَرَابَةٍ لَهَا مِنَ الْأَنْصَارِ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «أَهْدَيْتُمُ الْفَتَاةَ؟» قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: «أَرْسَلْتُمْ مَعَهَا مَنْ يُغَنِّي» ، قَالَتْ: لَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الْأَنْصَارَ قَوْمٌ فِيهِمْ غَزَلٌ، فَلَوْ بَعَثْتُمْ مَعَهَا مَنْ يَقُولُ: أَتَيْنَاكُمْ أَتَيْنَاكُمْ فَحَيَّانَا وَحَيَّاكُمْ

ترجمہ:

حضرت عبداللہ بن عبس سے روایت ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنی ایک رشتہ دار انصاری لڑکی کی شادی کی۔ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور فرمایا: تم لوگوں نے لڑکی کو رخصت کر دیا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ فرمایا: کیا تم نے اس کے ساتھ کسی کو بھیجا ہے جو گیت گائے؟ ام المومنین نے کہا: جی نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: انصار لوگ گیت وغیرہ پسند کرتے ہیں۔ (بہتر ہوتا) اگر تم اس کے ساتھ (کسی کو) بھیجتے جو کہتا: (اتيناكم اتيناكم‘ فحيانا وحياكم) ہم تمہارے پاس آئے ہیں۔ ہم تمہارے پاس آئے ہیں۔ ہمیں بھی مبارک، تمہیں بھی مبارک۔

اسی لیے تو میں نے کہا تھا کہ موجودہ مروجہ گانا حرام ہے جو گانا غیر شرعی ، فحش کلمات، جذبات کو ابھارنے والے الفاظ عورتوں کے حسن و اوصاف پر مشتمل نا ہو اور ایسے کلمات بغیر موسیقی کے آلات کے مزامیر کے بغیر گائے جائیں تو جائز ہو سکتا ہے اور اسی طرح کے کلمات اس حدیث میں موجود ہیں ہم تمہارے پاس آئے ہیں۔ ہم تمہارے پاس آئے ہیں ہمیں بھی مبارک، تمہیں بھی مبارک۔

علامہ ابو عبد اللہ قرطبی مالکی متوفی ٦٦٨ ھ فرماتے ہیں ایسا غناء جس سے دلوں میں تحریک پیدا ہوتی ہے ‘ اس سے عشق میں جو لانی پیدا ہوتی ہے ‘ اس قسم کے اشعار میں عورتوں کا اور ان کے حسن کا ذکر ہو اور ان کی خوبیوں کا بیان ہو اور شراب اور دیگر محرمات کا ذکر ہو تو اس کے حرام ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ یہ لہو ہے اور مذموم غنا ہے۔

مروجہ غنا کی حرمت میں تو کسی کا اختلاف ہی نہیں ہے
اچھا ایک منٹ بیگ سے غامدی صاحب کی کتاب نکال کر دکھاتے ہوئے کہا ترمذی شریف کی حدیث ہے جو آپ کے مؤقف کے خلاف ہے،
حضور ﷺ ایک غزوے سے واپس آئے تو ایک حبشی عورت جس نے مزامیر کے ساتھ گانے کی منت مانی تھی، اس نے حضورﷺ کی اجازت سے گایا۔ (ترمذی)

دیکھیں موسیقی کے آلات سے گانے کی اجازت حدیث میں موجود ہے،
یہ حدیث تو آپ ناجائز ہونے کی دلیل دے رہے ہیں۔ اس نے پوچھا وہ کیسے ؟
بھائی جان اس حدیث میں کہا گیا کہ اجازت سے گایا جب جائز تھا تو اجازت کس چیز کی مانگی ؟
اس کا دماغ چکرا گیا کہ اسی کی دلیل اسی کے خلاف کیسے ہو گئی ؟

تب میں نے کہا جناب دراصل یہ حدیث گانے کے عدم جواز کے ساتھ ساتھ اختیارات مصطفیٰ ﷺ کی دلیل ہے جیسا کہ حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ ایک کی شہادت دو شخصوں کے برابر قرار دینا، حضرت مولیٰ علی کرم اللہ وجھہ الکریم کیلیے خاتونِ جنت کے نکاح میں ہوتے ہوئے دوسرا نکاح ناجائز قرار دینا یہ ان کی خصوصیات ہیں ، اور یہ اس حدیث کے الفاظ سے ہی ظاہر ہورہا ہے کیونکہ اگر مزامیر سے گانا جائز ہوتا تو اجازت کس چیز کی مانگی ؟ اجازت مانگنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ مزامیر سے گانا گانا ممنوع ہے اسی لیے تو مالک شریعت سے اس کی اجازت مانگی جا رہی ہے۔

دوسرا لڑکا کہنے لگا جناب خود آپ کے بزرگان دین کی کافی لمبی فہرست ہے جو جائز قرار دے رہے ہیں بلکہ وہ خود سنتے تھے، دیکھیں امام غزالی علیہ الرحمۃ، علامہ شوکانی علیہ الرحمہ، شیخ عبدالحق محدث دہلوی اسے جائز کہتے ہیں، اور بھی بیسیوں نام ہیں،
میں مسکرا کر کہنے لگا جناب امام غزالی علیہ الرحمہ اور دیگر علماء اہلسنت نے جو جائز قرار دیا ہے وہ مشروط جائز قرار دیا ہے جس کا خلاصہ اس طرح ہے۔

  • *گانے کے بول اسلامی تعلیمات اور آداب کے خلاف نہ ہوں۔
  • *اسلامی تہذیب کے منافی کوئی بات شامل نہ ہو۔
  • *شراب، زنا کی رغبت نہ پائی جاتی ہو۔
  • *ادائی کا طریقہ اسلامی آداب کے مطابق شائستہ ہو۔
  • *جذبات کو (منفی طور پہ) بھڑکانے والا اہتمام نہ ہو۔
  • *زندگی کے دوسرے اہم کام ضائع نہ ہوں۔
  • *انسان مسلسل اپنے قلب و ضمیر کو جھنجھوڑتا رہے اور جائزہ لیتا رہے کہ وہ ناجائز چیزوں کا مرتکب تو نہیں ہورہا۔

ان شرائط پر پورا اترنے والے گانے کو جائز قرار دیا ہے،
آپ ہی بتائیں آج کل کے گانے کیا ان شرائط پر پورا اترتے ہیں؟ آپ نے صرف غامدی صاحب کو سنا ہے اصل کتاب نہیں دیکھی، اسی طرح اور جو بھی غامدی یا ان کے ہمنواؤں نے موسیقی کے جواز پر جو آحادیث محمول کرنے کی سعی غیر جمیل کی ہے حقیقت میں وہ انہی شرائط کے مطابق کے نغمات کی آحادیث ہیں جیساکہ حضرت براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ خندق کے دن مٹی کھود رہے تھے حتیٰ کہ آپ کے پیٹ پر خاک لگ گئی تھی اور آپ یہ منظوم کلام پڑھ رہے تھے :
واللہ لو لا اللہ ما اھتدینا ولاتصدقنا ولاصلینا
اللہ کی قسم اگر اللہ ہدایت نہ دیتا تو ہم ہدایت نہ پاتے اور نہ ہم صدقہ دیتے اور نہ نماز پڑھتے فانزلن سکینۃ علینا وثبت الاقدام ان لاقینا
پس تو ہم پر طمانیت نازل فرما اور دشمن کے مقابلہ کے وقت ہم کو ثابت قدم رکھ۔

ان الا ولی قد بغواعلینا ان اوردو افتنۃ بینا ابینا
بے شک پہلوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی اگر وہ ہم کو فتنہ میں ڈالنے کا ارادہ کریں گے تو ہم انکار کریں گے
اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابینا ابینا کا تکرار کرتے اور اس پر آواز کو بلند فرماتے۔
اسی مفھوم پر علامہ شوکانی کی عبارت مشتمل ہے جس کا حوالہ آپ نے دیا تھا میں نے پھر ٹیبلٹ سے کتاب نکال کر عبارت دکھائی
نیل الاوطار (۶/ ۱۰۶) ’’باب الدف واللہو‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’وفي ذلک (أي في حدیث فصل ما بین الحلال والحرام الدف والصوت في النکاح) دلیل علی أنہ یجوز في النکاح ضرب الأدفاف ورفع الأصوات بشيء من الکلام نحو أتیناکم أتیناکم ونحوہ لا بالأغاني المھیجۃ للشرور المشتملۃ علی وصف الجمال والفجور ومعاقرۃ الخمور،فإن ذلک یحرم في النکاح کما یحرم في غیرہ،وکذلک سائر الملاھي المحرم

یعنی اس حدیث میں کہ حلال نکاح و حرام نکاح میں دف اور صوت کا فرق ہے، اس بات کی دلیل ہے کہ نکاح میں دف بجانا اور آواز بلند کرنا ایسے کلام کے ساتھ جائز ہے جو ’’أتیناکم أتیناکم‘‘ کے مثل ہو، نہ ایسا گیت گانا جو برائیوں کو ہیجان میں لانے والا ہو،یعنی جو بیانِ حسن و جمال اور فجور و شراب نوشی پر مشتمل ہو،اس واسطے کہ ایسا گیت نکاح میں بھی حرام ہے اور غیرِ نکاح میں بھی،اسی طرح تمام حرام کردہ موسیقی کے آلات نکاح میں بھی حرام ہیں اور غیر نکاح میں بھی حرام ہیں۔*
اور یہی بات شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے کہی ہے،
اب دونوں لڑکے کافی ذہنی انتشار کا شکار ہوگئے تھے،

یہ جو انہوں نے حرام کہا ہے یہ اتنا آسان ہے کیا کسی بھی چیز کو حرام کہہ دو بغیر دلیل کے حالانکہ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے آن ایئر کہا تھا کہ میوزک کی حرمت قران میں صراحت کے ساتھ نہیں ہے نا ہی کسی صحیح حدیث میں،
میں نے کہا جناب میں نے پہلے بھی کہا کہ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ مجھے قرآن میں اس کا حکم نہیں ملا تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ قرآن میں ہے ہی نہیں ۔دیکھیں – سورۃ نمبر 17 الإسراء
آیت نمبر 64 کا جز ہے جس میں ابلیس سے الله پاک نے فرمایا
وَاسۡتَفۡزِزۡ مَنِ اسۡتَطَعۡتَ مِنۡهُمۡ بِصَوۡتِكَ
القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء (آیت نمبر 64)

ترجمہ:

تو ان میں سے جن کو اپنی آواز کے ساتھ پھسلا سکتا ہے پھسلا دے ۔
امام مجاھد فرماتے ہیں صَوتِک سے مراد نغمہ اور آلاتِ موسیقی ہیں، دیکھیں اس آیت میں نغمہ کو شیطان کی آواز کہا گیا ہے، اسی طرح سورہ لقمان آیت 6 میں فرمان ہے:
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ ٭ۖ وَّ یَتَّخِذَہَا ہُزُوًا ؕ اُولٰٓئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ ﴿۶﴾

ترجمہ

اور لوگوں میں سے جو شخص بیہودہ باتیں خریدتا ہے تاکہ بے اللہ کی راہ سے گمراہ کرے اور اس کا مذاق اڑائے ایسے ہی لوگوں کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا
اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں قسم اللہ کی اس سے مراد گانا اور راگ ہے۔ ایک اور جگہ ہے کہ آپ سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے تین دفعہ قسم کھاکر فرمایا کہ اس سے مقصد گانا اور راگ اور راگنیاں ہیں۔ یہی قول حضرت ابن عباس، جابر، عکرمہ، سعید بن جیبر، مجاہد مکحول، عمرو بن شعیب، کا ہے۔ امام حسن بصری فرماتے ہیں کہ یہ آیت گانے بجانے باجوں گاجوں کے بارے میں اتری ہے۔ حضرت قتادۃ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد صرف وہی نہیں جو اس لہو ولعب میں پیسے خرچے یہاں مراد خرید سے اسے محبوب رکھنا اور پسند کرنا ہے۔ انسان کو یہی گمراہی کافی ہے کہ لغو بات خریدنے سے مراد گانے والی لونڈیوں کی خریداری ہے چناچہ ابن ابی حاتم وغیرہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ گانے والیوں کی خرید و فروخت حلال نہیں اور ان کی قیمت کا کھانا حرام ہے انہی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے۔
میرے بھائی جب کسی عمل پر عذاب کی وعید سنائی جائے تو وہ وعید اس عمل کی حرمت کیلیے کافی ہے، آپ بتائیں کہ کونسے گانے پر درد ناک عذاب کی سزا بیان فرمائی ؟
دونوں پر بالکل سکتہ طاری تھا، میں نے ان لوگوں کی روشن خیالی کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکتے ہوئے بخاری شریف سے حدیث پیش کر دی
قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عَامِرٍ أَوْ أَبُو مَالِكٍ الْأَشْعَرِيُّ، وَاللَّهِ مَا كَذَبَنِي: سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَيَكُونَنَّ مِنْ أُمَّتِي أَقْوَامٌ، يَسْتَحِلُّونَ الحِرَ وَالحَرِيرَ، وَالخَمْرَ وَالمَعَازِفَ، وَلَيَنْزِلَنَّ أَقْوَامٌ إِلَى جَنْبِ عَلَمٍ، يَرُوحُ عَلَيْهِمْ بِسَارِحَةٍ لَهُمْ، يَأْتِيهِمْ – يَعْنِي الفَقِيرَ – لِحَاجَةٍ فَيَقُولُونَ: ارْجِعْ إِلَيْنَا غَدًا، فَيُبَيِّتُهُمُ اللَّهُ، وَيَضَعُ العَلَمَ، وَيَمْسَخُ آخَرِينَ قِرَدَةً وَخَنَازِيرَ إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ

ترجمہ:

فرمایا مجھ سے ابو عامر رضی اللہ عنہ یا ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اللہ کی قسم انہوں نے جھوٹ نہیں بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوجائیں گے جو زنا کاری ، ریشم کا پہننا ، شراب پینا اور گانے بجانے کو حلال بنالیں گے اور کچھ متکبر قسم کے لوگ پہاڑ کی چوٹی پر چلے جائیں گے ۔ چرواہے ان کے مویشی صبح وشام لائیں گے اور لے جائیں گے ۔ ان کے پاس ایک فقیر آدمی اپنی ضرورت لے کر جائے گا تو وہ ٹالنے کے لیے اس سے کہیں گے کہ کل آنا لیکن اللہ تعالیٰ رات کو ان کو ( ان کی سرکشی کی وجہ سے ) ہلاک کردے گا پہاڑ کو ( ان پر ) گرادے گا اور ان میں سے بہت سوں کو قیامت تک کے لیے بندر اور سور کی صورتوں میں مسخ کردے گا ۔
دیکھیں اس حديث ميں گانے بجانے كى حرمت كى دليل دو وجہ سے پائى جاتى ہے

پہلى وجہ:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان: ” وہ حلال كر لينگے “
يہ اس بات كى صراحت ہے كہ يہ مذكور اشياء شريعت ميں حرام ہيں، تو يہ لوگ انہيں حلال كر لينگے، اور ان مذكورہ اشياء ميں معازف يعنى گانے بجانے كے آلات بھى شامل ہيں، جو كہ شرعا حرام ہيں جنہيں يہ لوگ حلال كر ليں گے۔

دوم:

ان گانے بجانے والى اشياء كو ان اشياء كے ساتھ ملا كر ذكر كيا ہے جن كى حرمت قطعى طور پر ثابت ہے، اور اگر يہ حرام نہ ہوتى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اسے ان حرام اشياء كے ساتھ ملا كر ذكر نہ كرتے “بس وہ شکست خوردہ ہو کر یا متحیر ہو کر میرا منہ تک رہے تھے

ٹرین نواب شاہ اسٹیشن پہنچ چکی تھی وہ دونوں نیچے اتر کر اسٹالز کی طرف بڑھ گئے۔
ابھی وہ دونوں کراچی تک میرے ساتھ ہی تھے۔۔ باقی کا سفر دوسری قسط میں عرض کرتا ہوں۔