Advertisement
Advertisement

فراق گورکھپوری کی حالات زندگی اور غزل گوئی کے لیے یہاں کلک کریں۔

فراق گورکھپوری کی غزلوں کی تشریح۔

غزل نمبر 1

رکی رکی سی شب مرگ ختم پر آئی
وہ پو پھٹی ،وہ نئی زندگی نظر آئی

یہ شعر فراق گورکھپوری کی غزل سے لیا گیا ہے اور یہ اس غزل کا مطلع بھی ہے۔ اس شعر میں شاعر یہ کہہ رہا ہے کہ سامراجی نظام کا دور ختم ہوا۔ اب ایک نئی زندگی کا آفتاب روشن ہو گیا ہے اور اب ہم عدل و انصاف کے زمانے میں آئے ہیں یعنی ہم پرکسی چیز کی زبردستی نہیں کی جائے گی۔

Advertisement
یہ موڑ وہ ہے کہ پرچھائیاں بھی دیں گی نہ ساتھ
مسافروں سے کہو اس کی رہ گزر آئی


اس شعر میں شاعر نے ہجر کے قصے کو بیان کیا ہے کہ یہ ایک ایسا موڑ ہوتا جہاں ہر کوئی ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ لہٰذا انہوں نے لوگوں کو باخبر کیا ہے کہ سوچ سمجھ کر عشق کیجیے۔

فضا تبسم صبح بہار تھی لیکن
پہنچ کے منزل جاناں پہ آنکھ بھر آئی

اس شعر میں شاعر یہ کہہ رہے ہیں کہ اب سارے امتحان چلے گئے یعنی اب تمام مصیبتں ختم ہوگئی ہیں اور ایک نئی صبح روشن ہو گئی ہے۔ اگرچہ ایک طرف ہم تمام مشکلات سے نکل گئے ہیں لیکن دوسری طرف ہماری آنکھوں میں اب بھی آنسو ہیں۔ ہمیں پچھلے دونوں کو یاد کرکے آنکھیں بھر آتی ہیں۔

Advertisement
کسی کی بزم طرب میں حیات بٹتی تھی
امیدواروں میں کل موت بھی نظر آئی

اس شعر میں شاعر نے دنیا کی بے ثباتی کے بارے میں بتایا ہے کہ اس دنیا میں جہاں کوئی شخص اپنی زندگی بہت خوشیوں کے ساتھ گزارتا ہے اور انہیں خوشیوں کو منانے والے لوگوں کو ہم نے موت کے منہ میں جاتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔

Advertisement
کہاں ہر ایک سے انسانیت کا بار اٹھا
کہ یہ بلا بھی ترے عاشقوں کے سر آئی

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اس دنیا میں تمام لوگ زبانی دعویٰ کرتے ہیں لیکن جب ان کی باری آتی ہے تو وہ منہ پھیر لیتے ہیں یعنی انہوں نے ساتھ چھوڑ دیا اور یہ بات سچ ہوئی مگر تمہارے دوست اس مصیبت کو بھی اٹھانے سے گریزنہیں کریں گے۔

غزل نمبر 2

سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں
لیکن اس ترک محبت کا بھروسا بھی نہیں

اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ میرے سر اور میرے دل میں عشق کی کوئی بھی تمنا نہیں ہے یعنی اب میں عشق نہیں کر سکتا۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ ہم عشق کو ترک کر دیں بھروسہ ہی نہیں ہے کہ ہمارا دل کب عشق کی طرف راغب ہو جائے۔

Advertisement
دل کی گنتی نہ یگانوں میں نہ بیگانوں میں
لیکن اس جلوہ گہہ ناز سے اٹھتا بھی نہیں

اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ میرے دل کی گنتی نہ اپنوں میں ہے نہ بیگانوں میں۔ کوئی بھی میری محبت کی قدر نہیں کرتا۔ اس کے باوجود بھی میرا یہ دل محبوب کے ناز و ادا کو اٹھاتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ کبھی نہ کبھی میرا محبوب میری طرف نظرِ کرم فرمائے فرمائے گا۔

مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست
آہ! اب مجھ سے تری رنجش بے جا بھی نہیں

اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ اے میرے محبوب محبت اور مہربانی دونوں الگ الگ چیزیں ہیں دوسرے بندے کو کہتے ہیں پہلے آپ مجھ سے ناراض ہوتے تھے لیکن اب آپ مجھ سے ناراض بھی نہیں ہوتے۔

ایک مدت سے تیری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اے میرے محبوب میں کافی مدت سے تم کو یاد نہیں کر رہا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں تم کو بھول گیا ہو بلکہ دیگر مصروفیات نے مجھے الجھا کر رکھا ہے۔

آہ ! یہ مجمع احباب یہ بزمِ خاموش
آج محفل میں فراقِ سخن آرا بھی نہیں

اس شعر میں شاعر افسوس کرتے ہوئےکہتے ہیں کہ دوستوں کا مجموعہ جمع ہے لیکن اس میں بہت زیادہ خاموشی ہے اور دوسرے بند میں اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کیونکہ اس محفل میں فراقؔ موجود نہیں ہے اگر وہ ہوتے تو وہ اپنی شعر و شاعری کے ذریعے اس بزم کو روشن کرتے۔

Advertisement

غزل نمبر 3

آنکھوں میں جو بات ہو گئی ہے
اک شرح حیات ہو گئی ہے

اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ جب میرے محبوب اور میری آنکھیں چار ہوئیں / ملیں تو ان میں کچھ باتیں ہوئیں۔ یعنی اشاروں اشاروں میں پیار بھری باتیں ہوں گی جس سے نئی زندگی کی شروعات ہوگی۔

کیا جانیے موت کیا تھی پہلے
اب میری حیات ہو گئی ہے

اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ اے میرے محبوب میں یہ نہیں جانتا تھا کہ موت کیا ہوتی ہے مرنا کس کو کہتے ہیں لیکن اب موت میری زندگی بن گئی ہے۔ اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ میں نے عشق کر لیا ہے اور اب میرے اوپر یکے بعد دیگرے مصیبتیں آئیں گی کیونکہ میں نے عشق کر لیا ہے اور اب میرے لیے مرنا بہت آسان ہے۔

اس دور میں زندگی بشر کی
بیمار کی رات ہو گئی ہے

اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ آج کے دور کے انسان کی زندگی بالکل بیمار کی رات کی طرح ہوگئی ہے۔ کیونکہ انسان جب بیمار ہوتا ہے تو اس کے لئے وہ رات نہایت کرب ناگ اور تکلیف دہ ہوتی ہے۔

Advertisement
جس چیز کو چھو دیا ہے تو نے
اک برگ کے بنات ہو گئی ہے

اس شعر میں شاعر نے اپنے محبوب کی تعریف کی ہے۔ ایک الگ ہی انداز میں کی ہے اے میرے محبوب جس چیز کو بھی آپ چھوتے ہیں تو وہ کِھل اٹھتی ہے یعنی وہ سرسبز و شاداب ہو جاتی ہے۔

‏ایک ایک صفت فراقؔ اس کی
دیکھا ہے تو ذات ہو گئی ہے

یہ غزل کا آخری شعر ہے جس کو مقطع کہتے ہیں۔ اس شعر میں شاعر محبوب سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ ہمیں محبوب سے اس قدر عشق ہو گیا ہے کہ جو بھی صفت اس کے اندر نظر آتی ہے اس کو ہم اپنا لیتے ہیں۔ اس کے ناز و ادا کو ہم نے اپنے اندر اختیار کر لیا ہے۔

Advertisement
Advertisement

Advertisement