Advertisement
Advertisement
تم نے کھول رکھے ہیں بے رخی کے دروازے
بن کے سانپ ڈستے ہیں اب گلی کے دروازے
اب زمین لگتی ہے مانگ ایک بیوہ کی
بند ہو گئے شاید چاندنی کے دروازے
جب اندھیری راتوں میں حوصلوں کے پر نکلے
ہر طرف نظر آئے روشنی کے دروازے
اس سے پہلے آنگن کے پانچ پانچ ٹکڑے ہوں
بند کر مرے مولی زندگی کے دروازے
ڈگریاں سند لیکر لوگ ہوگئے بوڑھے
کیوں نظر نہیں آتے نوکری کے دروازے
دشمنی کے ہر تالے کٹ گئے مروت میں
جب سے ہم نے کھولے ہیں دوستی کے دروازے
چاہے اس کے قدموں میں دل کو رکھ دو یا سر کو
عشق نے ہی کھولے ہیں بندگی کے دروازے
خودکشی پہ آمدہ ہو گئے ہیں سب جگنو
کھل گئے چراغوں سے روشنی کے دروازے
غزل دلشاد دل سکندر پوری

Advertisement