Back to: عزیز اختر
رہ تم نہیں رہے جو حدود و قیود میں گھر کر گیا ہے عشق تمہارے وجود میں!! |
بن مانگے مجھ کو قاقم و سنجاب مل گئے تنگی سی لگ رہی ہے مگر اِس کشُود میں |
ہجر و وصال مَوت کے سِکّے کے رخ ہیں یار بچتا کہاں ہے کوئی بھی اِس کھیل کود میں |
کوئی احاطہ اُس کا نہ کر پائے گا کبھی سب کے لئے جو پیار ہے ذاتِ ودود میں |
خود بھیجتا ہے اور فرشتے بھی اُس کے سب رب نے بھری ہے کُوٹ کے عظمت درود میں |
مجھ کو ہی ساری چائے پلائی گئی ہے آج یعنی سفید بال پڑا ہو گا دودھ میں |
قرضے میں اپنی دید مجھے دے رہے ہو پر لے کر چلے نہ جانا مِری آنکھیں سود میں! |
لگتا ہے میرے دل سا مجھے آتشی عزیؔز شعلہ سا جل رہا ہـے جو چرخِ کبود میں |