Back to: عزیز اختر
غمِ حیات، غمِ قلبِ زار، کیا کیجے! کسی بھی طور نہیں ہے قرار، کیا کیجے! |
پلا گیا وہ ہمیں بے شمار، کیا کیجے!! اترنے والا نہیں یہ خمار، کیا کیجے!! |
رکھیں گے نام غذا کا غبار، کیا کیجے!! نہیں ہے آج کہیں روزگار، کیا کیجے!! |
نصیب سے بھئی شکوے ہزار کیا کیجے!! ہے دشمن اپنی پرانی بَہار، کیا کیجے!! |
قبا کسی کی کہیں تار تار کیا کیجے!! ہے دامن اپنا بھی تو داغدار، کیا کیجے!! |
مرے تو کیسے مرے یہ بخار، کیا کیجے!! جئے تو کیسے جئے دل فگار، کیا کیجے!! |
بجھا گیا ہے وہ امید کا دیا لیکن!! امید ہے کہ وہیں برقرار، کیا کیجے!! |
نہ کام آئے گا یوں بھی کسی کے دل یہ عزیؔز ! سو کر ہی دیتے ہیں اُس پر نثار، کیا کیجے! |