فلم بینی اور ہمارا بچپن

0

یہ غالباً 1978-79کا دور تھا ،جب ہماری عمر 8-9تھی ۔ھمارا تعلق گوادر بلوچستان جیسے شہر سے تھا۔جہاں زندگی کی اور بہت سی بنیادی سہولتوں کا اگر فقدان تھا ۔تو تفریح کے ذرائعے بھی بہت محدود تھے۔
ھمارے اس علاقے میں نہ تو پارکس تھے،نہ چڑیا گھر اور نہ ہی کوئی میوزیم موجود تھا۔لے دے کے دو سینما تھے ۔جن مین سے ایک کا نام بلوچستان ٹاکیز تھا ،جس کی جگہ آج کل میر یعقوب بزنجو کا گھر ھے،جبکہ دوسرے سینما کا نام تاج محل ٹاکیز تھا ،جسکی عمارت اب بھی قائم و دائم ھے ،لیکن پچھلے کئی سالوں سے اس میں فلم نہیں چلتی ھے۔

ماضی میں ان سینماوں میں رات کو کبھی ایک شو تو کبھی دو شو میں پاکستانی فلمیں چلاکر لوگوں کو تفریح بہم پہنچاتے تھے۔ان سینماوں کی چھتیں نہیں تھیں ۔جسکی وجہ سے یہاں صرف رات کے اوقات میں فلمیں چلتی تھیں اور اگر نئی فلم کے دو شو چلانےہوتے تو پہلا شو مغرب کی نماز کے فوراٌ بعد شروع ھوجاتا ۔جو پرانے فلم بینوں کو بالکل مزہ نہیں دیتا تھا ۔کیونکہ 10سے 15منٹ تک مغرب کی پھیلی ھوئی روشنی کے سبب پکچر واضح نظر نہیں آتی تھی۔لیکن یہ ان لوگوں کے لیے ایک بہترین موقع ھوتا تھا جو گھر میں بے جا پابندیوں کی وجہ سے فلم جیسی تفریح سے محروم تھے۔لیکن مغرب کو فلم چلنے کی وجہ سے وہ بلا روک ٹھوک فلم کی تفریح کا مزہ لیتے تھے اور اس طرح کے شو میں اکثر امیر گھرانوں کے بچے اور نوجوان دکھائی دیتے تھے جو جلد ہی یعنی 10بجے تک پہلا شو دیکھ کے آرام سے گھر جاسکتے تھے۔

یہ دونوں شو عموماً کافی رش لیتے تھے اور فلم دیکھنے والوں میں نہ صرف گوادر کے مقامی لوگ آتے تھے،بلکہ سربندن اور پیشکان سے بھی لوگ بسوں میں سوار ہوکر آتے اور فلموں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔
ھمارا بچپن بھی دوسرے بچوں اور نوجوانوں کی طرح فلم دیکھتے گزری۔لیکن ھماری ایک خوش قسمتی تھی کہ ھمارے ماموں مرحوم ٹھیکیدار خدابخش باہوٹ بلوچستان ٹاکیز کے منیجر تھے ،تو ھمارا فلم دیکھنا فری ھوتا تھا۔لیکن وہ صرف جمعہ کی شب ،جب اگلے دن اسکول کی چھٹی ہوتی تھی ،لیکن ھم پورا ھفتہ بلا ناغہ کبھی گیٹ کیپر تو کبھی ٹکٹ سیلر کی طرف سے فری میں فلم دیکھتے تھے۔

لیکن ماموں کی نظر بچاکر ،کیونکہ وہ اگر ھمیں دیکھ لیتا ،تو ہماری شامت آجانی تھی۔لیکن اسکی نوبت کم ہی آئی کہ ماموں کی ھم پر نظر پڑگئی اور ھمیں کافی کچھ سننا پڑا۔لیکن ماموں کی وہ غصہ اور جھڑکیاں فلم کے مزے کے سامنے ہیچ تھیں اور ھم جھڑکیاں کھانے کے باوجود اگلی رات پھر فلم دیکھنے جاتے تھے۔کیونکہ تفریح کا کوئی ذریعہ جو نہیں ہوتا تھا۔شاید ھمارے ماموں کو بھی اس با بت پتہ ھوتا تھا اور وہ بھی بعد میں پھر اتنا سخت نہیں رھے۔

سینما بینی کے ایک مخالف ھمارے ایک مشہور و معروف ٹیچر بھی تھے ،جنہیں جس اسٹوڈنٹ کی فلم بینی کے بارے پتہ چلتا ،وہ صبح اسے ضرور سزا دیتے تھے۔جس کی جاسوسی کے لئے اس نے باقاعدہ اینٹلی جنس لڑکوں کے گروپ بنالئیے تھے۔جنہیں صرف کچھ مخصوص ‌نکمے اور کام چور لڑکوں کی جاسوسی کرکے انہیں بتانا ھوتا تھا ،اور پھر ان کی شامت آجاتی ۔جبکہ ایک اور ٹیچر بھی تھے ،جو اسٹوڈنٹس کو اچھی فلمیں دیکھنے کے لئے اکساتے تھے۔

یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ھے کہ ھم بچپن میں کافی ڈرپوک ھوا کرتے تھے۔لیکن فلم دیکھنا ایک ایسا شوق تھا ۔جسکے بغیر ھم رہ نہیں پاتے تھے۔لیکن رات کی وجہ سے اکیلے جاتے ھوئے خوف بھی محسوس ھوتا تھا جبکہ میرے بھائی اور کزن مجھے اپنے ساتھ سینما نہیں لے جاتے تھے۔

ہمیں اچھی طرح یاد ھے کہ ھم اس وقت اسکول بھی نہیں جاتے تھے ۔لیکن فلم دیکھنے ضرور جاتے تھے اور اسی سلسلے میں مجھے بچپن کی ایک بلیک اینڈ وائٹ فلم،جو غالباًلالہ سدھیر کی ,,آخری چٹان ،، تھی۔اب بھی یاد آتی ھے کہ میری ضد کے سبب ھمارے والد نے بھی وہ فلم دیکھی تھی اور شاید اسکی یہ پہلی اورآخری فلم بھی تھی ۔کیو‌نکہ اسکے بعدمیں نے انہیں فلم دیکھنے کبھی بھی سینما جاتے ھوئے نہیں دیکھا۔

اس فلم کے دیکھنے کا قصہ یوں ھے کہ میرے بھائی حسن اور میرے کزن علی جاوید جو عمر میں مجھ سے بڑے تھے۔ھر شب اکھٹے فلم دیکھنے جاتے تھے۔لیکن مجھے اپنے ہمراہ سینما لے جانے سے کتراتے تھے ۔پتہ نہیں اسکی وجوھات کیا تھیں ۔لیکن اب جو میری سمجھ میں بات آتی ھے ۔وہ شاید اپنی پرائیوسی میں مجھے شامل نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ دونوں ھم خیال و ھم راز تھے اورکبھی کبھار سگریٹ کے کش بھی لگاتے تھے ۔اسلئے شاید وہ مجھے اپنے ساتھ نہیں لے جاتے تھے ۔جبکہ مجھے فلم دیکھنا ہوتا تھا ،جومیں اکیلا جاتے ھوئے ڈرتاتھا اور وہ مجھے اپنے ساتھ لے جانے سے کتراتے تھے۔

فلم کا ٹائم رات 9بجے تھا اور اس وقت ھم لوگ مغرب کی نماز کے بعد رات کا کھانا کھاتے تھے۔جو کہ موسم سرما میں 6سے 6:30 اور موسم گرما میں 7:30 سے 8بجے تک ھوجاتا تھا اور کھانا کھانے کے فوراً بعد میرا ایک ھی کام ھوتا تھا اور وہ تھا اپنے بھائی اور کزن کی حرکات و سکنات پر نظر رکھنا کہ کہیں وہ آنکھ بچاکر نکل نہ جائیں ۔وہ جونہی کھڑے ھوتے ،میں لپک کر ان کے پیچھے ھولیتا اور ساتھ ھی ابا سے بھی شکایت کردیتا کہ یہ مجھے اپنے ساتھ نہیں لے جاتےاور وہ صرف ابا کے ڈانٹ کے سبب مجھے اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔

لیکن باہر نکلتے ھی کبھی دوڈ لگاتے ،کبھی مختلف ڈراونی آوازیں نکالتے اور کبھی کبھار اتنا تیز دوڈتے کہ میں سینما جاکربمشکل انہیں پکڑ پاتا ،لیکن ان کا ساتھ نہیں چھوڈتا ۔حالانکہ ان کی حتیٰ الامکان کوشش ہوتی کہ مجھ سے پیچھا چھڑا لیں لیکن میں کہاں چھوڑنے والا تھا۔لیکن وہ کئی دفعہ اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی ھوجاتے ،تو اس دن میں کافی دیر تک روتا رہتا۔وہ بھی ایسی ھی رات تھی ،جب وہ مجھ سے رفوچکر ھوکر سینما چلے گئے تو میں کافی دیر تک روتا رہا ،پھر اماں کے کہنے سے ھی ابا مجھے اور میری چھوٹی بہن کولے کر سینماچلے گئے۔اس رات لالہ سدھیر کی آخری چٹان لگی تھی ،جو ابا نے بھی خوش ھوکر دیکھی اور میں ایک طرح سے مطمئن ھوگیا کہ آئندہ بھائی اورکزن کی منت نہیں کرنی پڑے گی۔ابا اب خود مجھے سینما لے جایا کریں گے،لیکن اگلی رات ابا نے کانوں کو ہاتھ لگاکر توبہ کرلی اور یوں میرا اور ان کا آنکھ مچولی والا کھیل پھر سے شروع ھوگیا اور یہ اس وقت تک جاری رہا ،جب تک میرا ڈر اور خوف جاتا نہیں رہا ۔جو عمر کے ساتھ ساتھ کم تو ھوا لیکن مکمل طور پر ختم نہیں ھوا۔لیکن تھوڑا بڑا ھونےپر میرے ہم عمر کزن الہیٰ بخش جب میرا دوست اور ساتھی بن گیا تو مجھے بھائیوں کے منت کی ضرورت نہیں رھی۔

اب میں اورالہیٰ بخش خوشی خوشی ھر شب فلم دیکھنے سینما جانے لگا۔
تو اس طرح باقاعدہ طور پر سکون سے فلم دیکھنے کا آغاز ھوگیا۔جہاں میں نے باقاعدہ طور پر جو پہلی فلم دیکھی وہ تھی یوسف خان اور محمدعلی کی فلم ,,پھول اور شعلے،،جو ھم نے بلوچستان ٹاکیز میں دیکھی اور ھماری دیکھی ھوئی فلمیں بیشتر اسی سینما سے تھیں۔کیونکہ ایک تو یہ سینما ھمارے گھر عثمانیہ وارڈ سے نزدیک تھا اور پھر ماموں جان کے منیجر شپ کی وجہ فلم بھی مفت ھوتی تھی۔

پھر فلمیں دیکھنے کا ایک نیا سلسلہ شروع ھوگیا۔ تو اس دوران ھم نے کئی فلمیں دیکھیں ۔جن میں تهذیب،نوکر،آپ کا خادم ،سنگرام،ان داتا،جاسوس،سارجنٹ ،شاہین،حقیقت،سلاخیں،دوریاں،دامن اور چنگاری،ھیر رانجھا،خاموش رھو،امراو جان ادا،گونج،دلہن اک رات کی،چیخ،پہچان،آئینہ،بندش ،انجمن،ثریا بھوپالی،آمنے سامنے،ھم دونوں،سنگدل،پرکھ،کھوٹے سکے،اف یہ بیویاں،دوبئی چلو،مولاجٹ ،شیر خان اور کئی دوسری فلمیں شامل تھیں۔

کیونکہ بیشتر فلمیں ھم نے نہیں دیکھی تھیں ،جو اب الہی بخش کی سنگت میں دیکھنی شروع کیں۔میں زیادہ تر اردو فلمیں دیکھتا تھا۔ اس دوران ھفتے میں ایک فلم لازمی طور نئی لگتی تھی۔

میں اگر اپنے پسند کی بات کروں تو ایک فلم تھی ,,عورت راج،،جو رنگیلا کی پروڈکشن و ڈائریکشن تھی ۔اس کا میں نے کافی نام اور تعریف سنی تھی ۔تبھی اس کامیں نے کافی انتظار کیا اور جب دیکھی تو کافی اچھی لگی۔

میری پسندیدہ فلمیں یوں تو بہت سی ہیں لیکن مجھے خاص طور پرانی بلیک اینڈ وائٹ فلموں میں جادوئی فلمیں۔جن میں پرستان۔محل اور حاتم طائی بہت اچھی لگیں ۔پھر رنگین فلموں میں الہٰ دین کافی اچھی لگی۔اس طرح پرانی فلموں میں عشق لیلیٰ،سات لاکھ ۔ہیر رانجھا اور ناگ منی بھی بہت اچھی فلمیں تھیں۔

پھر ندیم کی فلموں میں پہچان،ھم دونوں،اناڈی،آئینہ،بندش ،اور بازار حسن بہت ہی پیاری اور معیاری فلمیں تھیں۔اسی طرح محمدعلی کی حقیقت،خاموش رھو،سلاخیں،سنگرام، اور ٹیپو سلطان،بھی بیحد معیاری فلمیں تھیں۔

وحید مراد کی انجمن،شاہد کی اف یہ بیویاں،منور ظریف کی نوکر ووہٹی دا،علی اعجاز کی دبئی چلو،افضال احمد ،آصف خان اور مصطفیٰ قریشی کی سارجنٹ،سلطان راہی کی شاہین،جاسوس ،ان داتا،مولاجٹ،اور اک شہنشاہ میری پسندیدہ فلمیں تھیں ۔جبکہ میرا پسندیدہ ترین ہیرو ندیم اور ہیروئین بابرا شریف ہیں۔

اب آتے ہیں پھر اپنی فلم بینی کی طرف ھمارے ماموں جان کی صرف جمعہ کی رات میں ایک ھی فلم دیکھنے کی پابندی تھی لیکن وہ فلم دیکھنے میں کم ھی آڈے آئی کیونکہ ھم ان سے چپ چپھا کر جو اپنا ذوق پورا کرلیتے تھے۔ہاں کبھی کبھار ھم پکڑے جاتے تھے۔تو ماموں کی جھڑکیاں لازمی طور پر سننی پڑتی ۔پھر ایک دو رات تک ہم ناغہ کرتے ،لیکن کب تک۔کیونکہ فلم دیکھنا گوادر میں واحد اور آخری تفریح تھی۔

ہمیں پاکستانی فلمیں 80_81:کی دھائی تک اچھی لگتی تھیں۔کیونکہ اس وقت تک ھم صرف وہی فلمیں ھی دیکھ پاسکے تھے اور اس دور میں باقاعدہ لوگوں کے پسندیدہ فلمی ھیرو بھی ھوتے تھے۔جن میں سلطان راھی،ندیم،وحید مراد،شاہد،مصطفیٰ قریشی،آصف خان،جاوید شیخ اور شان جیسے ھیرو نمایاں تھے اور ان کے دیوانے باقاعدہ ریزگاری لے کر سینما جاتے اور ان کی بہترین انٹری پر وہ ریزگاری پردہ سیمیں پر پھینکتے تھے۔
پھر ایک دور میں پورے پاکستان کی طرح یہاں بھی فلمی اداکاروں کے نام سے ان کے فینز کی طرف سے مختلف تنظمیں بنیں۔جن میں ھمارے علاقے میں ندیم فیڈریشن اور جاوید شیخ فیڈریشن کافی مشہور تھے ۔

لیکن جب وی سی آر کی آمد اور پھر پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح ،ھمارے علاقے میں بھی ،ویڈیو کیسٹ کی دکانیں کھلنے کے بعد ،انڈین فلموں کی آمد شروع ھوئی تو کافی لوگوں کا رحجان پاکستانی فلموں سے انڈین فلموں کی طرف مبذول ھونے لگا۔اس کی کئی ایک وجوھات تھیں۔پہلی وجہ شاید مارکیٹ میں ایک نئے پراڈکٹ کی آمد تھی،کیونکہ یہ اصول ھے کہ نئے پراڈکٹ کو ایک دفعہ لازمی طور پر استعمال کیاجاتا ھے۔اور یہاں بھی یہی ھوا۔دوسری وجہ ضیاالحق رجیم کا بے جا سنسر شپ تھا ،جو پاکستانی فلموں پر لگنے کی وجہ سے ان میں تفریح کا پہلو کم ھونا شروع ھوااور تیسرا سبب لوگوں کا پاکستانی فلموں سے انڈین فلموں کی طرف رحجان کی وجہ یہ بنی کہ لوگوں کو انڈین فلموں کی پکچرائزیشن،ڈانس،فائٹنگ ،گانے ور لوکیشن پاکستانی فلموں سے بہتر لگے اور یہ ایک حقیقت تھی ،کیونکہ فلمی رسالوں کے پڑھنے سے یہ بات معلوم ھوئی کہ ان کی فلموں کا بجٹ ھماری فلموں کے بجٹ سے کافی زیادہ ھوتا تھا،جبھی وہ بے دریغ خرچ کرتے،جبکہ پاکستانی اپنے محدود وسائل میں بمشکل ان کا مقابلہ کرپاتے تھے۔

لیکن ان سب چیزوں کے باوجود سینما بینی کے رحجان میں تھوڈی بہت کمی ضرور آئی لیکن وہ مکمل طور پر ختم نہیں ھوئی،گو کہ پرانی فلم ماضی کی طرح رش نہیں لیتی تھی،لیکن نئی فلم کے اب بھی دونوں شوز فل ھاوس ھوتے تھے اور جو فلمیں ھمیں یاد ھیں وہ ٹینا،مس سنگاپور،ہانگ کانگ کے شعلے،بنکاک کے چور،بوبی،بازار حسن ،ضد،مکھڑا،دوریاں،میڈم باوری،کالے چور،بلندی ،سرکٹا انسان،طلسمی جزیرہ جیسی کی شاندار فلمیں تھیں،جو انڈین فلموں کے باوجود ھمارے علاقے میں رش لیتی تھیں۔لیکن جب پورے پاکستان میں اردو فلموں پر زوال آنا شروع ھوا اور اسکی جگہ پنجابی تھرڑ کلاس فلموں نے لینی شروع کی،تو اس کا اثر ھمارے شہر کی ان دو سینماوں کے بزنس پر بھی پڑنا شروع ھوا اور آہستہ جب سینماوں میں الو بولنے لگے تو پہلے ایک سینما اور پھر دونوں سینما 1995 _96 تک بند ھی ھوگئے۔

بہر حال گوادر کی فلم بینی سے ھماری نہیں کئی لوگوں کی بچپن کی یادیں وابستہ ہیں۔وہ رات چاہے موسم گرما کی تھیں یا موسم سرما کی ۔ھم فلم دیکھنانہیں چھوڑتے تھے۔

اب یہ ساری باتیں صرف سہانے سپنے کی صورت باقی رہ گئی ہیں ۔کیونکہ کافی سال ھوگئے یہ دونوں سینما بند پڑے ہیں۔جن میں بلوچستان ٹاکیز تو یعقوب بزنجو نامی شخص کی ذاتی رہائش گاہ بن چکی ھے۔جبکہ تاج محل ٹاکیز ،کو کچھ عرصہ پہلے ریسٹورنٹ کے طور پر چلانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ چلا نہیں۔اب گوادر اور اسکے گرد و نواح کے لوگ کافی عرصے سے سینما کی تفریح سے محروم ھیں۔

تو ھماری نظریں ایک بار پھر جی ڈی اے کی طرف جاتی ھیں،کہ اگر وہ چاہے توایک چھوٹے سینی فلکس ٹائپ کے سینما کا آغاز کرسکتا ھے۔تاکہ یہاں کے لوگ بھی پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح دوبارہ سینما کی تفریع سے لطف اندوز ھوسکیں۔
ولسلام……6ستمبر 2021ء

تحریر رفیق زاہد