قدر رکھتی نہ تھی متاع دل

0

غزل

قدر رکھتی نہ تھی متاع دل
سارے عالم میں، دکھا لایا
دل،کہ ایک قطرۂ خوں نہیں ہے بیش
ایک عالم کے سر بلا لایا
سب پہ جس بار نے گِرانی کی
اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا
دل، مجھے اس گلی میں لے جا کر
اور بھی خاک میں ملا لایا
اب تو جاتے ہیں مے کدےسے مؔیر
پھر ملیں گے، اگر خُدا لایا

تشریح

پہلا شعر

قدر رکھتی نہ تھی متاع دل
سارے عالم میں، دکھا لایا

شاعر کہتا ہے کہ دل کی دولت کچھ ایسی نہیں جو ہر کسی کے پاس ہو اور اسے جانچنے کے لئے جس نظر کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی سوائے عاشق کے کسی کے پاس نہیں ہوتی۔ لہٰذا شاعر کہتا ہے کہ یہ انمول دل کی دولت بھی اہل جہاں کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔میں اس دولت کو سارے جہاں میں دکھا لایا ہوں، نہ کسی نے اس کو پہچانا اور نہ ہی کسی نے اس کا مول لگایا۔

دوسرا شعر

دل،کہ ایک قطرۂ خوں نہیں ہے بیش
ایک عالم کے سر بلا لایا

شاعر کہتا ہے کہ یہ دل ہے جو تمام آفتوں کی جڑ ہے۔یہ ایک جہاں کے سر بلائیں نازل کرتا ہے اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ محض ایک قطرہ خوں ہے۔ اس سے زیادہ نہیں۔
بقول غالب؀
بہت شور سُنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرہ خون نہ نکلا

تیسرا شعر

سب پہ جس بار نے گِرانی کی
اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا

شاعر کہتا ہے کہ عشق میں بڑی مُصیبتیں اٹھانا پڑتی ہیں۔اس کا بوجھ وہ نہیں جس کو ہر کس و ناکس اٹھا لے۔اب شاعر کہتا ہے کہ عشق کا بوجھ جو سب کے لئے گراں تھا، کسی سے اٹھا نہیں پایا۔اس بھاری عشق کے بوجھ کو میں ناتواں اٹھا لایا ہوں۔گویا میں نے عشق کیا،اس کی تکلیفوں کو جھیلا ہے۔

چوتھا شعر

دل، مجھے اس گلی میں لے جا کر
اور بھی خاک میں ملا لایا

شاعر کہتا ہے عشق نے ہم کو پہلے ہی خاصا رسوا کر رکھا ہے۔اب دل کی بے قراری ہے کہ وہ چین نہیں لینے دیتا۔لہذا اس نے محبوب کے کوچے میں جانے کے لیے مجبور کر دیا اور نتیجہ وہی نکلا کہ ہم سرخرو نہیں ہو پائے بلکہ اور بھی خاک میں مل گئے، رسوا ہو گئے۔

پانچواں شعر

اب تو جاتے ہیں مے کدےسے مؔیر
پھر ملیں گے، اگر خُدا لایا

شاعر کہتا ہے کہ اب تو اس دنیا کے مے کدے سے جارہے ہیں یعنی دنیا سے جا رہے ہیں۔ لیکن اگر خُدا نے چاہا اور وہ دنیا میں دوبارہ لایا تو پھر ملیں گے۔