قرآن مجید کی تاثیر اور خوبیاں سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 30

سوال۱: قرآن مجید کی تاثیر پر نوٹ لکھیں۔

قرآن مجید کی تاثیر

قرآن مجید چونکہ کلام الہی ہے اس لیے اس میں پڑھنے والوں کے لیے بلا کی تاثیر رکھ دی گئی ہے۔ اس تاثیر کا اندازہ قرآن مجید کی اس آیت سے ہوتا ہے:
ترجمہ :۔ اگر ہم اتارتے یہ قرآن ایک پہاڑ پر تو تو دیکھ لیتا کہ وہ دب جاتا، پھٹ جاتا اللہ کے ڈرسے۔(سورة الحشر )

یہ اسی تاثیر کا سبب ہے کہ ایک مومن اس کی تلاوت کے دوران میں ایک عجیب کیفیت اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔ یہی دراصل ایمانی کیفیت ہے۔ جو تعلق باللہ میں استواری اور قرآنی تعلیمات کو اپنے اندر جذب کرنے کا باعث بنتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ و سلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے قرآن مجید سنتے اور اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم پر رقت کی عجیب پر کیفیت حالت طاری ہو جاتی۔ اس بارے میں ایک حدیث ذیل میں درج کی جاتی ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وعلی الہ واصحابہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ” مجھے قرآن سناؤ میں نے عرض کی اے خدا کے رسولﷺ میں آپ صلی اللہ علیہ وعلی الہ و اصحابہ و سلم کو قرآن سناؤں حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وعلی الہ و اصحابہ و سلم پر قرآن نازل ہواہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وعلی الہ و اصحابہ و سلم نے فرمایا میں اوروں سے قرآن سننا پسند کرتاہوں ، چنانچہ میں سورۃ نساء پڑھنے لگا۔ جب میں اس آیت پر پہنچا۔
ترجمہ : پھر کیا حال ہو گا جب بلاویں گے ہم ہر امت میں سے احوال کہنے والا اور بلاویں گے تجھ کو ان لوگوں پر احوال بتانے والا۔ (سورة النساء :۴۱)

تو آپ صلی اللہ علیہ وعلی الہ و اصحابہ وسلم نے فرمایا اب بس کرو۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وعلی الہ و اصحابہ وسلم کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وعلی الہ و اصحابہ وسلم کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ قرآن کی تلاوت کے دوران میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی کیا کیفیت ہوتی تھی۔ اس کے بارے میں مفسر ابن کثیر اپنی تفسیر میں یوں لکھتے ہیں۔”وہ نہ چیختے تھے اور نہ تکلفات سے کام لے کر کسی مصنوعی کیفیت کا مظاہرہ کرتے تھے، بلکہ وہ ثبات وسکون، ادب و خشیت میں اس قدر ممتاز تھے کہ ان صفات میں ان کی کوئی برابری نہ کر سکا“۔ (تفسیر ابن کثیر جلد ۴، صفحہ۵۱)

مومن کا دل تلاوت قرآن کے وقت جہاں کانپ اُٹھتا ہے اس کے ساتھ اس کے دل میں سکون کی کیفیت بھی طاری ہوتی ہے۔ گویا بدن اور دل کے نرم پڑھنے کا مطلب ہی سکون کا حاصل ہو جاتا ہے۔ جو رحمت الہٰیہ کے نزول کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے کہ تلاوت قرآن کے وقت سکون ورحمت کا نزول ہوتا ہے، اس لیے اس وقت رحمت الہٰیہ کا امیدوار بننے کے لیے قرآن مجید کو توجہ اور خاموشی سے سنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے۔
ترجمہ: اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس کی طرف کان لگائے رہو اور چپ رہو تا کہ تم پر رحم ہو۔ (سورة الاعراف: ۲۰۴)

یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار یہی لوگ ہیں جو قرآن مجید کو توجہ سے سنتے ہیں تا کہ اس کے ذریعے قرآن ان کے دلوں میں اتر جائے۔

سوال۲:قرآن مجید کی خوبیوں پر نوٹ لکھیں۔

قرآن مجید کی خوبیاں:

قرآن مجید میں ایسی خوبیاں موجود ہیں جن کے سبب یہ کتاب زندہ جاوید بن گئی ہے۔ ان تمام خوبیوں کا شمار ناممکن اور محال ہوگا۔ تاہم چند خوبیوں کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔قرآن مجید ایک سچی کتاب ہےاور اس کی دعوت اور پیغام بھی سچائی سے بھر پور ہے۔ اس کےدلائل نہایت مضبوط اور مستحکم ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
ترجمہ: یہ کتاب ہے کہ جانچ لیا ہے اس کی باتوں کو پھر کھولی گئی ہیں ایک حکمت والے خبر دار کےپاس سے۔(سورۃ ھور:۱)
چونکہ دلائل نہایت مضبوط ہیں اور سچائی کی طرح رہنمائی کرتے ہیں۔ اس لیے تضاد سے پاک ہیں۔ اس کے مضامین میں ذرہ بھر بھی اختلاف نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ : اگر یہ ہوتا کسی اور کا سوائے اللہ کے تو ضرور پاتے اس میں بہت تفاوت۔ (سورة النساء:۸۲)
اس کتاب نے ان افراد اور اقوام کی کامیابی کی ضمانت دی ہے۔ جو کچے دل سے اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے احکام پر عمل کرتے ہیں۔ بلکہ ان کے لیے یہ کتاب اس جہان میں بھی شرف و امتیاز کا وعدہ کرتی ہے۔ اس حقیقت کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یوں ارشاد فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے کتنی ہی قوموں کو بلندی بخشے گا اور کتنوں کو پست کرے گا”۔ ( صحیح مسلم)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی کی زندگی کو لیجیے۔ اس کتاب ہدایت کا اثر تھا، جس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زندگی کو یکسر بدل دیا۔ وہ عمر رضی اللہ عنہ جو اپنے باپ خطاب کی بکریاں چرایا کرتے تھے اور ان کے باپ انھیں جھڑ کا کرتے تھے اور یہ قوت و عزم میں قریش کے متوسط لوگوں میں سے تھے۔ وہی عمر رضی اللہ عنہ اسلام قبول کر لینے کے بعد تمام عالم کو اپنی عظمت وصلاحیت سے متحیر کر دیتے ہیں اور ایک ایسی اسلامی سلطنت کی بنیاد ڈالتے ہیں، جوقیصر و کسری کی حکومتوں پر حاوی ہے۔

تدبیر سلطنت میں ہمیشہ کے لیے وہ رہنما اصول مقرر کرتے ہیں۔ جن پر ساری دنیا فخر کرتی ہے۔ اتنی بڑی سلطنت کے سربراہ ہونے کے باوجود ورع وتقویٰ میں بے مثل ہیں۔ جو شخص جس قدر اس کتاب سے قریب ہو گا اسی قدر اسے شرف و امتیازنصیب ہو گا اور جس قدر اس کتاب کی تعلیمات سے روگردانی کرے گا اسی قدر وہ ذلت و خواری کاشکار ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر آج بھی مسلمان مل کر قرآن کی راہ پر چلیں تو وہ عزت و شرف یقینا آج بھی انھیں نصیب ہو سکتی ہے۔
تربیت و تزکیہ کے لحاظ سے اس کتاب میں بلا کی خوبی ہے۔ اس کی تربیت سے انسانی قلب و دماغ جذبات و خواہشات ، رجحانات، میلانات اور سیرت و کردار کا بخوبی تزکیہ ہوتا ہے۔ جس کی بدولت انسان اخلاقی فضائل اپنے اندر پیدا کرتا ہے اور پھر اس کی ہر بات دل میں اتر جاتی ہے۔ اس کی تلاوت سے جہاں قلب میں خشوع و خضوع پیدا ہوتا ہے۔ وہاں عزم و یقین کی دولت بھی نصیب ہوتی ہے۔