مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں

0

غزل

مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
ایک چکّر ہے مرے پاؤں میں زنجیر نہیں
شوق اس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو کہ جہاں
جادۂ غیر از نگہہ دیدۂ تصویر نہیں
حسرت لذت آزار رہی جاتی ہے
جادۂ راہِ وفا جز دمِ شمشیر نہیں
رنج نو میدی جاوید! گوارا رہیو!
خوش ہوں گر نالہ زبونی کشِ تاثیر نہیں
سر کھجاتا ہے، جہاں زحمِ سر اچھا ہو جائے
لذّتِ سنگ بہ اندازۂ تقریر نہیں
جب کرم رخصتِ بے باکی و گستاخی دے
کوئی تفصیر بجز خجلتِ تقصیر نہیں
غالب! اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسؔخ
آپ بے بہرہ اور جو معتقد میؔر نہیں

تشریح


پہلا شعر

مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
ایک چکّر ہے مرے پاؤں میں زنجیر نہیں


پاؤں میں چکر ہونا،ہر وقت پھرتے رہنا ہوتا ہے۔شاعر کہتا ہے کہ مجھے کوئی تدبیر دشت نوردی سے روک نہیں سکتی۔اس غرض یہ جو میرے پاؤں میں زنجیر ڈالی گئی ہے اس کو زنجیر مت جانو بلکہ اسے میرے پاؤں میں چکر سمجھو۔

دوسرا شعر

شوق اس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو کہ جہاں
جادۂ غیر از نگہہ دیدۂ تصویر نہیں

میرے عشق کا جنون مجھے اس دشت میں دوڑاتا ہے جہاں راستہ بالکل ناپید ہے۔ اور اگر وہاں کوئی راستہ ہے تو وہ جادوئے خیریت ہے اور کچھ نہیں۔

تیسرا شعر

حسرت لذت آزار رہی جاتی ہے
جادۂ راہِ وفا جز دمِ شمشیر نہیں

شاعر کہتا ہے کہ عشق کے آزار اور تکلیف میں جو لذت ہے اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ جی چاہتا ہے کہ اس لذت سے خوب لطف اندوز ہوں۔ مگر چوں کہ راہِ وفا سراسر تلوار کی دھار ہے۔اس لئے پہلے ہی قدم پر موت واقع ہوجاتی ہے۔ لہٰذا افسوس ہے کہ لذت آزار کی حسرت دل ہی میں رہ جاتی۔

چوتھا شعر

رنج نو میدی جاوید! گوارا رہیو!
خوش ہوں گر نالہ زبونی کشِ تاثیر نہیں

شاعر کہتا ہے کہ خدا کرے مجھے دائمی مایوسی اور ناامیدی گوارار ہے۔اب میں اس حالت سے بہت خوش ہوں کیوں کہ کم ازکم اس حالت سے میرے نالے،تاثیر کے احسان کی ذلت اٹھانے سے تو محفوظ رہیں گے۔

پانچواں شعر

سر کھجاتا ہے، جہاں زحمِ سر اچھا ہو جائے
لذّتِ سنگ بہ اندازۂ تقریر نہیں

جس وقت میرا سر اچھا ہونے لگتا ہے تو میرے سر میں کھجلی ہوتی ہے۔میٹنگ گویا جی چاہتا ہے کہ لڑکے پھر مجھے پتھر ماریں اور زخم لگائیں اور پتھر کھانے میں کچھ ایسا لطف ہے جو بیان سے باہر ہے۔

ساتواں شعر

غالب! اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسؔخ
آپ بے بہرہ اور جو معتقد میؔر نہیں

مقطع میں غالب نے میؔر کی پٹرول پمپس استاد کا اعتراف کیا ہے۔ناسخ اردو غزل کے ایک مشہور شاعر کا تخلص ہے۔ اب غالب کہتے ہیں کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے، ایمان ہے کہ جو شخص میر تقی میر کو پیغمبر سخن نہیں مانتا اور شاعری میں ان کی پیروی نہیں کرتا وہ تو بے بہرہ اور بدنصیب ہے۔