مجھے گھر جانا ہے

0

          جگدیش گھر پر تھا کہ اس کے پڑوسی نے اسے آکر بتایا کہ دیش میں lock down ہو گیا ہے۔ جگدیش گاؤں کے غریب کسان کا بیٹا تھا جو گاؤں کے ہی ایک اسکول سے پڑھا تھا۔ پہلے ہی اسے کورونا وائرس جیسی پھیلی وبا کو سمجھنے میں وقت لگا اب وہ اس سوچ میں تھا کہ lock down  کیا ہے۔ اس رات وہ ذرا اپنے گھر سے باہر سیر کے لیے نکلا تو اس نے چند لوگوں کو باتیں کرتے سنا lock down ہو گیا ہے اب سب بند، اب کیا ہوگا؟ کچھ دیر بعد جب جگدیش واپس آ یا تو اس کی سات سال کی بیٹی منی یہ کہتے ہوئے آکر گلے سے لگ گئی؛
بابا آ گئے ، بابا آ گئے!

رینو بھی کمرے سے نکل کر دروازے تک آئی۔ اس کی نگاہ جگدیش کے مایوس اور فکر میں ڈوبے چہرے پر پڑی، یہ بات اسے بھی پریشان کر رہی تھی آخر بات کیا ہے۔ لیکن وہ اتنا ہی پوچھ کر خاموش ہو گئی کہ. . . . . . . اوجی کہا تھے اتنی رات ہو گئی ہے؟
جگدیش منی کو گود میں لے کر گھر میں چلا آیا پر اس نے رینو سے کچھ نہ کہا۔

رینو اور جگدیش دونوں رات بھر سو نہ سکے دونوں ہی جانتے تھے کل سے سب بند ہے۔ اب گزر کیسے ہوگا، رینو جب بھی جگدیش کی طرف دیکھتی تو جگدیش جلدی سے آنکھیں موند لیتا جیسے وہ رینو سے کہنا چاہ رہا ہو دیکھو میں سکون سے سو رہا ہوں تم بھی پریشان مت ہو۔

لوکڈاون ہوئے اب ایک ہفتہ بیت چکا تھا۔ جگدیش کی پریشانیاں مزید بڑھ رہی تھیں کیونکہ وہ ایک مزدور ہے اور اس کی کل جمع پونجی بھی اب ختم ہو نے کو آرہی تھی۔ کچھ دیر بعد جگدیش کی نظر مکان مالک پر پڑی جو اسی کی طرف چلا آرہا تھا۔

مکان مالک نے قریب آتے ہی جگدیش سے کہا؛  ”سنو جگدیش ایسے نہیں چلے گا تم نے پہلے ہی تین مہینے کا کرایہ نہیں چکایا اب اس وقت بھی تم کرایا نہیں دوگے تو گھر خالی کرنا ہوگا“۔

پہلے تو اس نے کہا مالک میرے پاس کھانے تک کو پیشے نہیں، کرایہ ابھی کہاں سے لا کر دوں۔ جب مکان مالک پر اس کی فریادوں کا کوئی اثر نہ ہوا تو اس نے کچھ دن کی مہلت مانگی. . . میں آپ کو کچھ نہ کچھ کر کے کرایہ دے دونگا۔ مکان مالک یہ کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا کہ اگر اس نے دو دن میں کرایہ نہیں چکایا تو گھر خالی کرنا ہوگا۔

رینو دروازے کے قریب یہ سب سن رہی تھی جگدیش جب اندر آیا تو اس کا چہرہ دیکھ کر وہ رسوئی میں جا کر رونے لگی۔ دل میں بس یہی خیال آرہا تھا کہ اب کیا ہوگا؟ جگدیش کی ساری کوششیں ناکام رہیں، کسی طرح بھی پیسوں کا انتظام نہ ہو سکا۔

دو دن بعد مکان مالک اپنے کہنے کے مطابق آپہنچا۔ اس بار وہ پہلے سے بھی زیادہ غصے میں تھا۔ جگدیش سے اس نے پیسوں کی طلب کی۔ جگدیش مکان مالک کے سامنے اپنی بےبسی کا اظہار کرتے ہوئے رونے لگا لیکن مکان مالک نے اس کی ایک نہ سنی، سارا سامان گھر سے باہر پھینکوا دیا اور گھر پر تالا مار کر چلا گیا۔

جگدیش کے پاس اب صرف اس واحد راستے کے علاوہ کچھ نہ تھا کہ وہ اپنے گاؤں چلا جائے، پر کیسے  ؟ آخر اس کا گاؤں بھی تو دو ہزار کیلومیٹر دور تھا۔ نہ کوئی سہولت نہ جانے کے لیے پیسے۔ ایسے میں وہ کیسے گاؤں کو جائے۔ دل پر پتھر باندھ کر اس نے آخر اپنے گاؤں جانے کا ارادہ کیا، سامان باندھا، رینو، منی کو ساتھ لیا اور چل پڑا۔

کئی گھنٹوں پیدل چلتے ہوئے اس نے کچھ دوری طے کی تو دیکھا صرف وہ اکیلا نہیں بلکہ کئی اور بھی ہیں جو اس کرونا کا نہیں بلکہ اس lock down کا شکار ہوئے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ دل میں یہ امید کی کرن بھی جھلک اٹھی کہ آخر یہ سب بھی تو اپنے گاؤں کو جارہے ہیں، ہم بھی پہنچ ہی جائیں گے۔ بھگوان سے پرارتھنا کرتے ہوئے اس نے دل ہی دل میں یہ قسم بھی اٹھا لی اب وہ کبھی اس جگہ واپس نہیں آئے گا۔

ابھی تو سفر کی شروعات ہوئی تھی، منی کی معصومانہ نوعیت کا اندازہ تو اسی بات سے ہورہا تھا کہ وہ یہ کہتے ہوئے اپنے ماما بابا سے اور جلدی چلنے کو کہہ رہی تھی کہ شام تک ہم گاؤں پہنچ جائیں گے۔ دوپہر کی تپتی دھوپ میں ایک پیپل کے پیڑ کے نزدیک رینو نے جگدیش سے ذرا ٹھہرنے کو کہا۔سب وہیں ٹھہر گئے جو روکھی سوکھی تھی تھوڑا کھایا پانی پی کر ذرا ٹھہرے، پر جگدیش کو اس پیڑ کے سائے تلے بھی پریشانیوں کی دھوپ جلا رہی تھی۔ آخر وہ یہ کیوں نہ سوچتا، اسکی بیوی جو پیٹ سے ہے، چھوٹی بیٹی کی عمر ہی کیا ہے آخر وہ ان سب کو گھر لے جانے میں کامیاب ہو پائے گا بھی یا نہیں۔

پریشانیوں کے ساتھ سرکار کے اس فیصلے پر اسے غصہ بھی بہت آتا تھا لیکن ایک مزدور کر بھی کیا سکتا ہے، سوائے برا بھلا بول کر اور گالیاں دینے کے علاوہ اس کے اختیار میں کچھ نہ تھا۔ وہ جی بھر سرکار کے ساتھ خود کو بھی اس بات پر کوس رہا تھا کہ آخر میں یہاں آیا کیوں؟ اچھا بھلا وہاں گاؤں میں کھیتی کرتا تو شاید. . . . .  شاید مجھے بھگوان یہ دن نہ دکھاتا۔

وہ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ کہیں مجھے یہ میرے جنم بھومی چھوڑ کر پردیش میں آنے کی سزا تو نہیں مل رہی۔ اس کے ساتھ اس کی لاچاری کے سوا کوئی نہ تھا، آخر اس کے ان سوالوں کے جواب دیتا کون؟
اتنے میں منی دوڑتے ہوئے آتی ہے اور جگدیش اسے گود میں بیٹھا لیتا ہے۔
بابا ہم گھر کب پہنچے گیں؟
ہاں بیٹا، ہاں! جگدیش یہ بولتا ہے، وہ اب بھی اپنی ان پریشان کن سوالوں میں الجھا تھا۔
منی پھر پوچھتی ہے کیا بابا بتائیں نا ہم گاؤں کب پہنچے گے؟
 جگدیش نے کہا،
ہم گھر پہنچے گے؟ ہاں ہاں پہنچ جائیں گے۔ چلو اب، رینو سے یہ کہتے ہوئے جگدیش پھر سے راستوں کا رخ کرتا ہے۔ وہ کھڑے ہو کر اس لمبی سڑک پر ایسے نظریں جمائے ہوئے تھا جیسے ابھی کوئی آن پڑے گا اور اسے گاؤں چھوڑ دیگا۔

اتنے میں ہی رینو کہتی ہے،
ہاں جی چلو اب آپ کس کی راہ تکتے ہو!
چلتے ہوئے اسی طرح چار دن گزر گئے، منی دیر دیر پر کچھ کھانے کو مانگتی تو میں اور رینو اسے یہ کہہ کر بہلا دیتے بس تھوڑی دیر میں تمہیں جی بھر کھلاتے ہیں کچھ دیر بعد نظر اس بھلے شخص پر پڑتی ہے جو ایسے مسافروں کو کھانا کھلا رہا تھا جو اپنے گھر کو جارہے تھے۔ شفقت اور پر خلوص انداز میں اس شخص نے جگدیش کو بھی کھانے کو دیا، اس کے لیے وہ شخص بھگوان سے کم نہ تھا جس نے اس کی پیٹ کی آگ بجھانے کو کھانا دیا۔

کھانا لے کر وہ ایک کنارے کھڑا ہو گیا اب وہ اس بات سے پریشان تھا کہ اس کھانے کا وہ کیا کرے کھائے یا رہنے دے، کیونکہ منی تو دیر دیر پر کھانے کو مانگتی ہے اور کیا پتہ آگے کھانے کو ملے نہ ملے. . . .
یہ سوچتے ہوئے اس نے چند نوالے کھائے اور یہ کہہ کر کھانے کو رکھ لیا کہ میرا پیٹ بھر گیا۔ کچھ دیر بعد وہ واپس چلنے لگے۔

سڑک پر اس نے چلنے کے دوران دیکھا کہ بہت سے لوگ ٹرکوں میں اپنے اپنے گھروں کو جارہے ہیں۔ بھیڑ ہی اتنی تھی کہ قدم نہ رکھ پائیں۔ یہ عالم دیکھ کر اس کی ہمت ہی نہیں ہوئی کہ ٹرک ڈرائیور سے پوچھ سکے کہ کیا وہ اسے بھی اس کے گاؤں چھوڑ دیگا۔

وہ اپنے پریوار کے ساتھ چلتا رہا کچھ دیر بعد جب کئی ٹرک گزر چکے تھے ایک ٹرک ڈرائیور نے جگدیش سے یہ ہارن بجاتے ہوئے پوچھا،
او بھائ کہاں جارے ہو؟
جگدیش کے دل میں کچھ امیدیں اور بڑھ گئیں۔ اس نے کہا اپنے گاؤں کو جارہا ہوں۔ ڈرائیور نے کہا ٹرک میں دو لوگوں کی جگہ ہے آ جاؤ ان سب کی طرح تمہیں بھی چھوڑ دونگا، پر کرایا چار ہزار ہے۔ جگدیش نے پاس جاکر کہا میرے پاس اتنے پیسے نہیں۔ ڈرائیور نے کہا اچھا بھائی کوئی بات نہیں تین ہزار ہی دے دو۔
جگدیش نے تین ہزار روپیے ڈرائیور کو دئیے۔ رینو اور منی کو اس نے ٹرک میں بیٹھا دیا، بیٹھانا کیا وہاں تو پیر رکھنے کی بھی جگہ نہ تھی۔ رینو نے اپنے بےبس آنسوؤں کے ساتھ جگدیش سے کہا؛ تم بھی اچھے سے آجانا جی!

ٹرک چلنا شروع ہوا اور جلدہی اس نے رفتار پکڑ لی اور نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ جگدیش اب ان تمام پریشان کن باتوں کے ساتھ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ وہ دونوں گھر جلد پہنچ جائیں گے، ایک طرف فکر بھی کہ نہ جانے وہ دونوں کیسے. . . . . .
اس نے واپس چلنا شروع کیا اگلے روز اس کی ملاقات اک لڑکے سے ہوتی ہے جو اس کے پڑوسی گاؤں کا تھا سفر میں ایک ساتھی کے ساتھ وہ گھر کے اور چلنے لگا۔

دونوں نے اپنے اپنے دکھڑے سنائے اپنی مجبوریاں ایک دوسرے سے کہیں، پھر رات ہوتے ہی ٹہرے تو اس کی بے چینی و پریشانی میں مزید اضافہ ہوا کہ کسی طرح رینو اور منی کی خبر ملے ٹھیک تو ہیں نا دونوں۔ پھر خیال آیا کہ ہاں ڈرائیور نے نمبر تو دیا تھا، نمبر ملا کر پوچھ لیتا ہوں. . . . .
کئی بار نمبر بند بتلانے پر وہ اور پریشان ہو گیا۔ اس کے ساتھی نے کہا گھبراؤ نہیں بھیا  تمہارا پریوار ٹھیک ہوگا آو سو جاؤ کل بھور میں نکلنا ہے۔
جگدیش نے دھیرے سے سر ہلا کر کہا ہاں!
ہاں ٹھیک ہونگے …….
بھگوان سے پرارتھنا کرتا رہا اور سوچتا رہا، آخر دیر رات اسے نیند آئی کچھ دیر بعد ساتھی نے اٹھایا بھیا چلو سمے ہو چلا۔

کچھ ہی دیر میں دونوں چل پڑے، دھوپ کی شدت بڑھتی چلی جارہی تھی،  بے حال پریشان وہ بھی چلتا جا رہا تھا کہ اس کی نظر سڑک پر جمع بھیڑ پر گئی ۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا عجیب سی پریشانی اور ڈر کھائے جا رہی تھی۔
کچھ قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ ٹرک حادثہ ہوا ہے۔ ہمت کر کے ایک پولیس والے سے پوچھا صاحب ٹرک حادثہ ہوا ہے کیا؟
پولیس والے نے جواب دیا …..ہاں
ڈرائیور شراب پی کر رات میں ٹرک چلا رہا تھا اور دوسرے ٹرک نے ٹکر مار دی اور یہ حادثہ ہوا، اب تک 50 لوگ مر چکے ہیں اوروں کو نکال رہے ہیں۔

ٹرک جانا پہچانا تھا، جگدیش کی ڈھڑکنیں اور تیز ہو رہی تھیں۔ وہ کچھ آگے بڑھا تو  منی کا چپل پڑا تھا۔ کچھ اور آگے بڑھا تو اس کے سامنے رینو اور منی کی لاش خون سے لت پت پڑی تھی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ پولیس والے نے اسے روکنے کی کوشش کی اور پوچھا کیا تم انہیں جانتے ہو؟ اس نے خود کو چھڑاتے ہوئے ان دونوں سے لپٹ گیا اور کہنے لگا یہ میری بیٹی اور بیوی ہے۔
اب وہ اپنے ہوش کھو بیٹھا اور بے تحاثہ چیخ چیخ کر رونے لگا یہ کہتے ہوئے کہ مجھے گھر جانا ہے …………مجھے گھر جانا ہے ……….