محبت کے سفر کا آخری خط تمہارے نام

0

لفظ اُلجھ رہے ہیں! لفظوں کا ایک ہجوم ہیں۔ جو بے ترتیبی سے میرے دماغ کو پاگل کر رہا ہے۔ “ہاں” ایک پاگل لڑکے کو، اور پاگل کر رہا ہے۔ وقت کم ہے، بہت ہی کم۔ تمہارے ساتھ زندگی بھر کا ساتھ چاہنے والا پاگل لڑکا,اب ہر لمحے یہ سوچ کر ڈر – ڈر کر گزارتا ہے کہ کب وقتِ جدائی آئیگا۔ اور تم اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلی جاؤ گی، تمہارے ساتھ ایک پاک اور خوبصورت زندگی گزارنے کا جو خواب میں 6 سالوں سے بُنتا آ رہا تھا، وہ خواب ٹوٹ کر چکنا چُور ہو چکا ہے!
سنوں…..!
میری طرف….!
میری طرف اس بے رُخی سے مت دیکھا کرو، جیسے کہ جانتے بھی نہ ہو مجھے!

کبھی تو ایک نظر محبت کی ڈال دیا کرو، تاکہ اس بے چین دل کو قرار ملے، تمہاری یہ بے رُخی میرے دل کو چھلنی-چھلنی کر دیتا ہے۔ وہ ٹوٹے خوابوں کی کُرچِیاں جو میرے ہاتھوں نے تھامی ہوتی ہے وہ میرے ہاتھ کو اور لہولہان کر دیتا ہے۔ تمہیں ذرا بھی ترس نہیں آتا مجھ پر!
“اچھا ٹھیک ہے تم خوش رہو”۔
لیکن سنوں…..!

کچھ دن کی تو بات ہے۔ مجھے اس طرح نظر انداز تو مت کرو! پھر ہمیشہ کے لیے تمہاری زندگی سے دور چلا جاؤں گا۔ اتنا دور کے تمہیں کبھی اس شہر میں نظر نہیں آؤں گا۔ تمہارے موبائل پر بار-بار آنے والے Message روک جائیں گے۔ جو تمہاری مصروفیت میں خلل پیدا کر دیا کرتے ہیں۔

تمہاری نظریں عزیز کو دیکھنے کے لیے ترس جائے گی۔ مگر تمہیں اُس کی ایک جھلک بھی نظر نہیں آئیگی۔ Google, Facebook پر تم میرا نام لکھ کر سَرچ کرو گی۔ اور مجھے ڈھونڈ نے کی کوشش بھی کرو گی۔ لیکن ناکام ہو جاؤگی۔ میں اپنا نام و نشان تک تمہاری زندگی سے مٹا دونگا۔ “ہاں” تمہاری زندگی سے۔ تم تڑپوگی میری محبت کے لیے۔ اُس محبت کے لیے جس کی چاہت مے، میں تمہارے درمیان پر 6 سال سے خالی کاشہ لیے بیٹھا رہا۔ لیکن تم….. محبت کا ایک سکہ بھی اِس خالی کاشہ میں نہیں ڈال سکی۔ اُس محبت کے لیے جس کے لیے میں ہر ذلت برداشت کرتا رہا۔ کے کبھی تو تمہیں مجھ پر رحم آئیگا۔

تم ڈھونڈوگی اُس پاگل لڑکے کو جو تمہاری محبت میں بھٹکتا ہوا کسی فقیر کا سا روپ دھار چکا تھا۔ لیکن افسوس تمہیں پھر وہ لڑکا کبھی نہیں ملے گا۔ نا ہی اُس کے جیسی محبت کرنے والا کوئی دوسرا۔ تمہاری یہی سزا ہوگی کہ تم ہر پل اُس کو یاد کرو گی، اور ہر گھڑی روتی رہوگی! اور ویسی ہی اذیت میں رہو گی۔ جیسی اذیت میرے وجود کو ناصور بنا رہا ہے۔ ہر لمحہ محبت نام کی بیماری مجھے موت کے قریب کر رہی ہے۔ “اِس لیے کہتا تھا کہ کچھ وقت دے دو مجھے”۔ کہ کل کو تمہارا رونا، پریشان ہونا، مجھے واپس تمہاری زندگی میں نہیں لا سکے گا۔ صرف پچھتاوا ہوگا۔ جس کا کوئی بھی کفارہ نہ ہوگا!
جانتے ہو اکثر اِن ٹھنڈی سرد راتوں میں بِنا شال لیے کھڑکی کے پاس کھڑا روشنیوں میں ڈوبے ہوئے شہر کو دیکھتا رہتا ہوں۔ اندھیرے میں چمکتی یہ روشنیاں اور ٹھنڈی ہوا جو میرے جسم کو لرزہ دیتی ہے۔ دور آسمان پر چمکتا چاند جو کبھی مجھے دیکھتا ہے اور کبھی کسی بادل کے پیچھیں چھپ جاتا ہے۔ ایک سکون ہی سکون ہوتا ہے آنکھوں سے گرتے آنسوؤں کے، یہ سارے گواہ ہوتے ہیں! جو میری راتوں کے آنسوؤں کا راز رکھتے ہیں۔ اور وبیلا کرکے لوگوں کو نہیں بتاتے!
میری سسکیاں…..، کمرے کے درو دیوار اپنے اندر جزب کر لیتے ہیں! کھڑکی سے آتی تیز ہوائیں مجھ سے لپٹ کر مجھے تسلی دینے لگتی ہے۔ کبھی میرے بالوں سے کھیلتی ہے ، تو کبھی میرے آنسوؤں کو اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کرتی ہے۔ ایک وحشت ناک خاموشی ہوتی ہے۔ اور ہوا کا شور……….! جو مجھے ڈانٹ کر چپ کروانے کی کوشش کرتا ہے!
تم کہتے ہو کے…. تم مجھ سے محبت نہیں کرتے، تمہارے اِس ایک جملہ سے میں کیا سے کیا ہو گیا ہوں۔ تم تصور بھی نہیں کر سکتے!
سنوں جانا…!
کبھی ہو سکے تو کسی سرد رات میرے کمرے میں آنا…. جہاں تمہیں میں تو نہیں ملونگا۔ لیکن کھڑکی اور روشنیوں میں ڈوبا شہر، ٹھنڈی ہوائیں اور آسمان پر چمکتا خوبصورت شفاف چاند…. وہ سب تمہیں…. میری اذیت میں گزری ہر رات کا احوال ضرور سنائنگے۔
لیکن افسوس تب میں نہیں رہوں گا۔ ہاں تمہارا عزیز تب نہیں ہوگا…!
فقط
تمہارا عزیز