محمد حسین آزاد

0

محمد حسین آزاد ایک عقبری شخصیت کے مالک تھے- عربی اور فارسی زبانوں میں ماہر تھے اور انگریزی زبان سے اچھی طرح واقف تھے- اس سے انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا تھا- قدیم ادبی روایات پر جہاں گہری نظر تھی وہیں جدید ادبی رجحانات سے اچھی طرح واقف تھے۔ اردو شاعری کو جدید رجحانات سے واقف کرانے کا سہرا ان ہی کے سر ہے- چنانچہ بہت سے قومی واخلاقی مناظر فطرت سے متعلق موضوعات پر نظمیں لکھ کر اردو شاعری میں انقلاب پیدا کیا- آب حیات نیرنگ خیال دربار اکبری سخندان فارسی جیسی کتابیں لکھ کر آزاد نے اردو نثر نگاری کا بہترین نمونہ پیش کیا۔ یہ تمام کتابیں آزاد کی بے پناہ تخلیق اور تنقیدی صلاحیتوں اور انشا پردازانہ کمالات کا مظہر ہیں۔

محمد حسین آزاد کے مضامین مجموعی ہیں- یہ دو حصوں میں شائع ہوئے ہیں۔ آزاد نے اس میں تمثیل نگاری سے کام لیا ہے۔ نیرنگ خیال ایک رمزیہ مضامین ہے- یہ مضامین ہلکی پھلکی شگفتہ مضمون نگاری کا بہترین نمونہ ہیں۔ ان میں آزاد نے انگریزی ادب سے بھرپور استفادہ کیا ہے- اگر آزاد نیرنگ خیال کے علاوہ کچھ اور نہ بھی لکھتے تو بھی ان کا شمار اردو کے غیر فانی انشاءپردازوں میں ہوتا۔

نیرنگ خیال میں انہوں نے اردو داں طبقیے کو انگریزی ادب سے روشناس کرانے کی کوشش کی ہے- ان کے تمام مضامین انگریزی سے لئے ہیں یعنی انگریزی مضامین کی طرز پر فرضی افسانے لکھے گئے ہیں اور اخلاق و موضوعات کے نتائج نکالے گئے ہیں۔

نیرنگ خیال میں آزاد نے رنگین اور دلنشین اسلوب اختیار کیا ہے۔ ان کی فلم میں جادو ہے اور واقعات اس طرح سامنے آتے ہیں جس طرح سنیمہ کے پردے پر چلتی ہوئی تصویریں۔ نیرنگ خیال کا اسلوب شاعرانہ ہے اس میں تشبیہات اور اشتہارات خوب شامل ہیں ان کے ہاں سادگی اور شیرنی ہے اور شعری وسائل سے خوب کام لیتے ہیں- تصویر کشی میں مہارت رکھتے ہیں اور واقعہ کی ہو بہو تصویر کھینچ دیتے ہیں- ان کے کردار ہندوستانی اور ایرانی ہیں۔

نیرنگ خیال کے تمام مضامین میں ‘شہرت عام اور بقائے دوام کا دربار’ سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے- اس میں آزاد نے غالب اور سعدی کا خاکہ پیش کیا ہے جس میں ان کی مرقع نگاری کے جوہر سامنے آتے ہیں- اس مضمون کی تمہید میں انہوں نے ایڈیسن کے ہی مضمون کا ترجمہ پیش کیا ہے- ‘سچ اور جھوٹ کا رزم نامہ’ ایک رمزیہ مضمون ہے جس میں دونوں کی معرکہ آرائی دکھائی گئی ہے اور تجحیم سے کام لیا گیا ہے۔

آزاد محاکات کے بادشاہ ہیں اور ہر چیز کی تصویر کھینچنے میں مہارت رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے طرز تحریر کی کوئی نقل نہ کر سکا۔ ڈاکٹر رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں ” آزاد کی عبارت میں بھاشا کی سادگی اور بے تکلفی انگریزی کی صاف گوئی اور فارسی کی حسن کاری سب یکجا ہو گئی ہیں-

انشاء پردازی کا جو طرز آزاد نے شروع کیا تھا وہ ان ہی پر ختم ہو گیا۔ ان کے کلام میں ایسی شعریت ہے کہ معلوم ہوتا ہے انہوں نے شعر کو نثر میں لکھ دیا ہو- وہ اپنی تحریروں میں ایک ایک لفظ چن کر لاتے ہیں اور شعری وسائل سے عبارت کو دلچسپ بناتے ہیں- اکثر ان کی تحریروں میں ڈرامائی شکل بھی پیدا ہوجاتی ہے اور بات کا سا انداز ملتا ہے۔ ان کی تحریروں میں ایسا جادو ہے کہ قاری کے دل میں اتر جاتی ہیں۔

آزاد کی عظمت ان کے انوکھے اور نادر اسلوب کی بدولت ہے- ان کی سادگی میں بھی بناؤ سنگھار پایا جاتا ہے اس معاملے میں انہیں یکتائی حاصل ہے اور یہی ان کے نثر کی پہچان ہے۔ آزاد کی تحریر خوبصورت تشبیہات اور استعارات سے آراستہ ہیں اور کہیں بھی تصنع اور آورد کا احساس نہیں ہوتا-

اس طرح آزاد نے اردو نثر کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں، نئے رنگ و آہنگ سے آشنا کیا اور رنگین اور ر عنائی سے بھرپور اسلوب عطا کیا۔ آزاد کی تحریروں میں بلا کی شوخی شگفتگی سادگی اور پرکاری ہے- ان کی تحاریر تصنع سے پاک ہیں۔ عبارت میں سادگی اور بے تکلفی سے ایک حسن پیدا ہو جاتا ہے۔ جذبات نگاری میں بھی کمال کی قدرت ہے- تشبیہات اور استعارات کثیر تعداد میں ہیں پھر بھی ان کی تحریروں میں پانی کی سی روانی ہیں۔

وہ عربی فارسی اور انگریزی الفاظ گھلا ملا کر نہایت حسین طریقے سے استعمال کرتے ہیں- آزاد کا یہ طریقہ تحریر سنجیدہ مضامین میں خوب کام آسکتا ہے لیکن تنقید اور تاریخ میں طرز تحریر موزو ں نہیں-

آزاد کہیں کہیں جانبداری اور اور عصبیت سے کام لیتے ہیں جذبات کی رو میں صداقت سے چشم پوشی کر جاتے ہیں جو ان کا محبوب ہے وہ قسم کی برائیوں سے پاک ہے اور جو انہیں پسند نہیں اس کی برائیاں نظر آتی ہیں-

تحریر ارویٰ شاکر