مذہب کا مفروضہ ختم ہونے کو ہے ؟

0
✍️ ابو عمر غلام مجتبیٰ مدنی

Julian Huxley جولین ہکسلے اپنی کتاب
Religion without Revelation میں مذہب کی فرضی کہانی بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ سائنسی علوم کی ارتقاء نے انسان کو وہ سب کچھ دیا جو پہلے نہیں دیکھا تھا واقعات و حقائق کی جو کڑیاں انسانی علم و عقل کی دسترس سے باہر تھیں اب کھل کر سامنے آگئی ہیں کائنات کے وجود اور مذہب و خدا کے ثبوت کی فرضی خیالات کا معاملہ اسطرح معرض وجود میں آیا کہ *انسان پہلے نہیں جانتا تھا کہ سورج کیسے نکلتا ہے اور کیسے ڈوبتا ہے لہذا نا جاننے کی بناء پر سوچ بنا دی گئی کہ کوئی ما فوق الفطرت ایسی طاقت و قدرت ہے جو اس سورج کو طلوع و غروب کرتی ہے یہ سارا نظام اسی کی قدرت کا کرشمہ ہے لیکن اب جب ہم جانتے ہیں اور مشاہدہ کر لیا گیا کہ سورج کا طلوع و غروب اس کے گرد زمین کے گھومنے کی وجہ سے ہے تو اب سورج کے طلوع و غروب میں خدا کو ماننے کی کیا ضرورت باقی رہ گئی* ان ساری چیزوں کے بارے میں سمجھا جاتا تھا کہ ان سب کے پیچھے اسی اَن دیکھی طاقت کا ہاتھ ہے وہ سب جدید مطالعے اور مشاہدے کے جانی پہچانی فطری طاقتوں کا عمل و رد عمل نظر آگیا گویا *واقعے کے فطری اسباب کے بعد وہ ضرورت خود بخود ختم ہوگئی جس ضرورت کے پیش نظر کسی مافوق الفطرت قوت یا خدا کے وجود کو فرض کر لیا گیا تھا* وہ اتنے یقین سے کہہ رہا ہے کہ
if events are due to natural causes , they are not due to supernatural causes
یعنی واقعات اگر فطری اسباب کے تحت واقع ہوتے ہیں تو مافوق الفطرت اسباب کے تحت واقع نہیں ہو سکتے ، نتیجہ یہ نکلا کہ جب تک واقعات فطری اسباب کے تحت واقع ہونے کا علم نہیں تھا تب تک مذہب اور خدا کے وجود کو فرض کیا گیا تھا لیکن جب یہ سب کچھ Law of nature کے تحت ہے تو مذہب و خدا کے مفروضے بھی باطل ہوچکے ہیں۔

اس ساری تفصیل اور دلائل پر اگر تنقیدی نظر ڈالی جائے تو یہ کہنا بےجا نا ہوگا کہ علم و مشاہدات کو جو سائنسدان عقل و علم کی ارتقاء سمجھتے ہیں یہ اس سوال کا جواب ہے ہی نہیں جس سوال کے جواب میں مذہب کو ماننا زندگی کا لازمی حصا بنا تھا تفصیل اس کی اس طرح ہے کہ جو کچھ جانا گیا ہے وہ صرف یہ جانا گیا ہے کہ اس کائنات میں کیا کیا ہے گویا کائنات کی تفصیل جانی گئی ہے ، لیکن یہ سب کیوں ہے ؟ یہ اب بھی غیر حاصل ہی ہے اور مذہب کے سوال کا تعلق بھی اسی قسم سے ہے یعنی اب تک کی دریافت سے ہم نے کائنات کے ڈھانچے کو جان لیا ہے جب کہ مذہب یہ بتاتا ہے کہ اس کے اصل اسباب و محرکات کیا ہیں علوم جدیدہ تو واقعات کی مزید تفصیل ضرور بتاتا ہے لیکن اصل واقعے کی توجیہات ہنوز دور است ، اس کو اگر مثال سے سمجھیں تو جیسے ایک مرغی کا بچہ انڈے کے ایک مضبوط خول کے اندر ایک وقت تک پرورش پاتا ہے اور اس کے بعد اس کے ٹوٹنے سے باہر آتا ہے یہ واقعہ کیوں ہوتا ہے کہ ایک مضبوط خول ٹوٹے اور ایک نازک چوزہ جو گوشت کا فقط ایک ٹکڑا ہے باہر آئے پہلے کا انسان یہ کہتا ہے کہ یہ خدا کرتا ہے لیکن اب مشاہدے اور تجربے کا علم موجود ہے خوردبین کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے کہ جب اکیس دن ہونے والے ہوتے ہیں تو ننھے چوزے کی چونچ کے اوپر ایک سخت سینگ ظاہر ہوتی ہے جس کے ذریعے چوزہ خول توڑتا ہے سینگ اپنا کام کرکے جھڑ جاتی ہے اب جو مذہب مخالفین ہیں ان کے نظریے کے مطابق قدیم انسان کا ماننا غلط ثابت ہوا کہ یہ سب خدا کرتا ہے کیونکہ اکیس روزہ قوانین ہیں جن کے پیش نظر سینگ کی وجہ سے چوزہ خول سے باہر آجاتا ہے یہ سب خدا کرتا ہے کا مفروضہ غلط ثابت ہوگیا لیکن یہ سراسر مغالطہ ہی ہے جدید علم نے ہمیں واقعے کی مزید کچھ کڑیاں ضرور بتائی ہیں واقعہ کا اصل سبب اور محرک نہیں بتایا اس جدید معلومات نے ہمیں واقعہ کی ایک درمیانی گمشدہ کڑی تو بتائی لیکن سبب و علت اب بھی مخفی ہے ،

پہلے سوال خول کے ٹوٹنے کا تھا اب وہ سینگ کے وجود پر اٹک کیا اصل سبب تو تب معلوم ہوتا جب یہ پتا چلتا کہ یہ چونچ پر جو سینگ آیا وہ کیسے آیا دوسرے لفظوں میں وہ آخری سبب اور علت معلوم کرنے کا سوال تھا جو چوزے کی خول سے نکلنے کی ضرورت سے واقف تھا کہ چوزے کو خول سے نکلنے کیلیے کسی سخت مادے کی ضرورت ہے جو اکیس روزہ قانون میں ظاہر ہوئی گویا پہلے سوال تھا کہ خول کیسے ٹوٹی اور اب سوال ہے کہ سینگ کیسے آئی لہذا سوال کی نوعیت میں کوئی فرق نہیں صرف سوال کے الفاظ تبدیل ہوگئے* اس کو حقیقت کا وسیع ترین مشاہدہ تو کہہ سکتے ہیں لیکن اصل حقیقت و واقعہ کی توجیہ کا نام نہیں دیا جا سکتا ، اس سے آپ جدید ترین دریافتوں اور مشاہدات کی حقیقت سمجھ سکتے ہیں *یہ درست ہے کہ سائنس نے کائنات کے بارے میں انسان کے مشاہدات کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے اس نے دکھا دیا ہے کہ وہ کون سے فطری قوانین ہیں جن میں یہ کائنات کا نظام جکڑا ہوا ہے اور جن کے تحت یہ حرکت کر رہی ہے

مثلاً پہلے آدمی بس یہ جانتا تھا کہ بادلوں سے بارش برستی ہے لیکن اب جدید علوم کے ذریعے سمندر سے بھاپ کے اٹھنے سے لے کر بارش کے قطرے کا زمین پر گرنے کا پورا طریقہ تو معلوم ہوگیا لیکن یہ ساری دریافتیں واقعے کی ایک تصویر ہے واقعہ کی توجیہ نہیں ہیں ، سائنس ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ فطرت کے قوانین دراصل قوانین بنے کیسے حقیقت یہ ہے کہ وہ فطرت جس کو معلوم کر لینے کے بعد انسان یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ اس نے کائنات کی توجیہ معلوم کر لی وہ ایک دھوکا ، ایک غیر متعلق بات کو سوال کا جواب بنا کر پیش کرنا اور درمیانی کڑی کو آخری کڑی قرار دینا ہے ، ایک عیسائی عالم کا قول ہے کہ
*Nature is a fact , Not an explanation*
فطرت کا قانون کائنات کا ایک واقعہ ہے کائنات کی توجیہ نہیں۔