مرثیہ حضرت علی اصغر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے پانی مانگنا تشریح

0

تعارفِ شاعر :

مرزا سلامت علی نام اور دبیر تخلص تھا۔ آپ دہلی میں پیدا ہوئے۔ طالبعلمی کے زمانے سے ہی شعر گوئی کی جانب مائل ہوئے۔ آپ نے کم از کم تین ہزار مرثیے کہے ہیں۔ رباعی ، سلام اور نوحے ان کے علاوہ ہیں۔ دفترِ ماتم ، رباعیاتِ دبیر ، ابواب المصائب اور رسالہ مرزا دبیر آپ کی اہم کتابوں میں شامل ہیں۔ دفتر ماتم کی بیسیں جلدیں ہیں۔ میر انیس سے آپ کی قلمی معرکہ آرائیاں ہوتی رہتی تھیں۔ آپ کے شاگردوں کی بھی کثیر تعداد تھی۔

ہر اک قدم پہ سوچتے تھے سبطِ مصطفی ﷺ
لے تو چلا ہوں فوج عمر سے کہوں گا کیا
نے مانگنا ہی آتا ہے مجھ کو نہ التجا
منت بھی گر کروں گا تو کیا دیں گے وہ بھلا
پانی کے واسطے نہ سنیں گے عدو میری
پیاسے کی جان جائے گی اور آبرو میری

تشریح :

مرثیے کے اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب یزید کے لشکر کے پاس حضرت اصغر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واسطے پانی مانگنے جارہے ہوتے ہیں تو وہ ہر قدم پر سوچتے ہیں کہ میں اس فوج کے پاس جا تو رہا ہوں لیکن میں ان سے آخر کہوں گا کیا؟ مجھے تو نہ کسی انسان سے مانگنا آتا ہے اور نہ التجا کرنا آتی ہے۔ کیونکہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کے نواسے تو ہمیشہ اپنے رب کے حضور ہی جھکتے رہے تھے وہ تو کبھی کسی انسان کے سامنے نہ جھکے تھے۔

شاعر کہتے ہیں کہ نواسہ رسول سوچتے تھے کہ اگر میں اس فوج سے منت کر بھی لوں کہ مجھے پانی چاہیے تو کیا وہ مجھے پانی دیں گے؟ وہ اس قدر ظالم لوگ کیا میری بات کا مان رکھیں گے؟ شاعر کہتے ہیں کہ وہ سوچتے تھے کہ وہ میری التجا تو نہیں سنیں گے لیکن پیاسے یعنی حضرت اصغر کی جان ضرور لے لیں اور میری عزت و آبرو بھی وہاں ختم ہوجائے گی کہ نواسہ رسولﷺ کی التجا وہ لوگ پوری نہیں کریں گے۔

پہنچے قریب فوج تو گھبرا کے رہ گئے
چاہا کریں سوال پہ شرما کے رہ گئے
غیرت سے رنگ فق ہوا تھرا کے رہ گئے
چادر پسر کے چہرے سے سرکا کے رہ گئے
آنکھیں جھکا کے بولے کہ یہ ہم کو لائے ہیں
اصغرؑ تمہارے پاس عرض لے کے آئے ہیں

تشریح :

اس شعر میں شاعر لکھتے ہیں کہ جب حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ لشکرِ یزید کے پاس پہنچے تو وہ گھبرا کر رہ گئے۔ یہاں گھبرانے سے مراد ڈرنا نہیں ہے بلکہ نواسہ رسول ﷺ کو یہاں شرم آرہی تھی انسانوں سے کسی چیز کے لیے سوال کرنے سے کیونکہ وہ ہمیشہ ہر چیز کا سوال اپنے رب سے کرتے تھے۔ جب انھوں نے سوچا کہ اب وہ اس لشکر سے پانی کا سوال کریں تو وہ تھرا کر رہ گئے۔ غیرت کے مارے ان کا رنگ فق ہونے لگا۔ انھیں شرم آئی تو انھوں نے اپنی آنکھوں کو جھکا لیا اور اس لشکر سے کہا کہ ہمارے بیٹے اصغر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیں یہاں لے کر آئے ہیں۔ وہ تم سب سے ایک فریاد کرنا چاہتے ہیں۔

گر میں بقول عمرو شمر ہوں گناہ گار
یہ تو نہیں کسی کے بھی آگے قصور وار
شش ماہ بے زبان نبی زادہ شیر خوار
ہفتم سے سب کے ساتھ یہ پیاسا ہے بےقرار
سِن ہے جو کم تو پیاس کا صدمہ زیادہ ہے
مظلوم خود ہے اور یہ مظلوم زادہ ہے

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس لشکر کو مخاطب کر کے کہا کہ تم لوگوں کے لیے اگر میں گناہ گار ہوں تب بھی اس چھوٹے سے بچے کا تو کوئی قصور نہیں ہے۔ یہ تو چھ ماہ کا ہے اور نبی زادہ ہے یعنی نبی کے خاندان سے ہے اور ابھی تو یہ دودھ پیتا بچہ ہے اس نے کسی کا کیا بگاڑا ہے۔ ہم سب یہاں ایک ہفتے سے پیاسے ہیں ایسے میں یہ بچہ بہت شدید پیاس کی وجہ سے بےچین ہے۔ کیونکہ یہ چھوٹا ہے اسلیے اسے بہت زیادہ پیاس لگ رہی ہے اور یہ پریشان ہورہا ہے۔ ہم سب مظلوم ہیں اور میری یہ اولاد مظلوم زادہ ہے۔ یعنی اس شعر میں شاعر نے وہ باتیں بیان کی ہیں کہ جب نواسہ رسول اپنے فرزند کے لیے لشکرِ یزید سے پانی کا سوال کرنے گئے تھے۔

یہ کون بےزباں ہے تمھیں کچھ خیال ہے
در نجف ہے بانوے بے کس کا لال ہے
لو مان لو تمھیں قسم ذوالجلال ہے
یثرب کے شاہ زادے کا پہلا سوال ہے
پوتا علیؓ کا تم سے طلب گارِ آبِ ہے
دے دو کہ اس میں نام وری ہے ثواب ہے

تشریح :

اس شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ کے نواسے وہاں فرماتے ہیں کہ دیکھو یہ بےزباں شیر خوار بچہ کس گھرانے کا سپوت ہے۔ یہ درنجف جیسا قیمتی ہے یہ نبی کے گھرانے کا بچہ ہے تم دیکھو تو یہ کس کا لال ہے۔ وہ ان لوگوں سے کہتے ہیں تمھیں اپنے رب کی قسم ہے تم مان جاؤ اور اس کے لیے پانی دے دو۔ یہ مدینے کا شاہ زادہ ہے اور یہ پہلی بار تم سے کوئی سوال کررہا ہے تم اسے خالی ہاتھ مٹ لوٹاؤ۔ یہ علی المرتضیؓ کا پوتا ہے جو تم سے پانی مانگ رہا ہے تم اسے پانی دے دو اسی میں تمہاری بھلائی پوشیدہ ہے۔ اگر تم اسے پانی پلا دو گے تو تمھاری نیک نامی ہوگی اور تمھیں ثواب ملےگا۔ تمھیں تمھارے رب کی قسم ہے اسے پلادو پانی۔

پھر ہونٹ بےزبان کے چومے جھکا کے سر
رو کر کہا جو کہنا تھا  وہ کہہ چکا پدر
باقی رہی نہ بات کوئی اے مرے جگر
سوکھی زبان تم بھی دکھا دو نکال کر
پھیری زبان لبوں پہ جو اس نورِ عین نے
تھرا کے آسمان کو دیکھا حسینؑ نے

تشریح

اس شعر میں شاعر لکھتے ہیں کہ جب لشکرِ یزید نے نواسہ رسولﷺ کو پانی نہیں دیا تو وہ سر جھکا کر رودیے اور انھوں نے اپنے بیٹے کے ہونٹ چوم کر کہا کہ اے میرے فرزند! تمہارے پدر کو جو کچھ کہنا تھا وہ میں نے کہہ دیا ہے یعنی تمھارے شاہ زادے ہونے، علیؓ کے پوتے اور نبی ﷺ کے گھرانے کے سپوت ہونے کے متعلق بھی کہہ سنایا ہے لیکن یہ لوگ مانتے ہی نہیں۔ اب میرے کہنے کوکچھ نہیں بچا ہے۔ اب تم ہی انھیں اپنی سوکھی زبان دکھا دو تو شاید انھیں رحم آجائے۔ یہ سن کر جب حضرت اصغر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی زبانِ مبارک کو ہونٹوں پر پھیرا تو ان کی زبان اس قدر سوکھی ہوئی اور خشک تھی کہ اس کی خشکی دیکھ کر نواسہ رسول ﷺ تھرا کر رہ گئے اور ان کی نگاہ یکایک آسمان کی جانب اپنے رب کی طرف چلی گئی۔

مشق

سوال : حضرت امام حسینؓ نے یزیدی فوج سے کیا سوال کیا؟

جواب : حضرت امام حسینؓ نے یزیدی فوج سے پانی کا سوال کیا۔

سوال : اس مرثیے کا خلاصہ لکھیے۔

خلاصہ :

مرثیے کے پہلے شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب یزید کے لشکر کے پاس حضرت اصغر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واسطے پانی مانگنے جارہے ہوتے ہیں تو وہ ہر قدم پر سوچتے ہیں کہ میں اس فوج کے پاس جا تو رہا ہوں لیکن میں ان سے آخر کہوں گا کیا؟ مجھے تو نہ کسی انسان سے مانگنا آتا ہے اور نہ التجا کرنا آتی ہے۔ کیونکہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کے نواسے تو ہمیشہ اپنے رب کے حضور ہی جھکتے رہے تھے وہ تو کبھی کسی انسان کے سامنے نہ جھکے تھے۔

شاعر لکھتے ہیں کہ جب حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ لشکرِ یزید کے پاس پہنچے تو وہ گھبرا کر رہ گئے۔ یہاں گھبرانے سے مراد ڈرنا نہیں ہے بلکہ نواسہ رسول ﷺ کو یہاں شرم آرہی تھی انسانوں سے کسی چیز کے لیے سوال کرنے سے کیونکہ وہ ہمیشہ ہر چیز کا سوال اپنے رب سے کرتے تھے۔

شاعر کہتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس لشکر کو مخاطب کر کے کہا کہ تم لوگوں کے لیے اگر میں گناہ گار ہوں تب بھی اس چھوٹے سے بچے کا تو کوئی قصور نہیں ہے۔ یہ تو چھ ماہ کا ہے اور نبی زادہ ہے یعنی نبی کے خاندان سے ہے اور ابھی تو یہ دودھ پیتا بچہ ہے اس نے کسی کا کیا بگاڑا ہے۔ ہم سب یہاں ایک ہفتے سے پیاسے ہیں ایسے میں یہ بچہ بہت شدید پیاس کی وجہ سے بےچین ہے۔

شاعر لکھتے ہیں کہ جب لشکرِ یزید نے نواسہ رسولﷺ کو پانی نہیں دیا تو وہ سر جھکا کر رودیے اور انھوں نے اپنے بیٹے کے ہونٹ چوم کر کہا کہ اے میرے فرزند! تمہارے پدر کو جو کچھ کہنا تھا وہ میں نے کہہ دیا ہے یعنی تمھارے شاہ زادے ہونے، علیؓ کے پوتے اور نبی ﷺ کے گھرانے کے سپوت ہونے کے متعلق بھی کہہ سنایا ہے لیکن یہ لوگ مانتے ہی نہیں۔ اب میرے کہنے کوکچھ نہیں بچا ہے۔ اب تم ہی انھیں اپنی سوکھی زبان دکھا دو تو شاید انھیں رحم آجائے۔

یہ سن کر جب حضرت اصغر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی زبانِ مبارک کو ہونٹوں پر پھیرا تو ان کی زبان اس قدر سوکھی ہوئی اور خشک تھی کہ اس کی خشکی دیکھ کر نواسہ رسول ﷺ تھرا کر رہ گئے اور ان کی نگاہ یکایک آسمان کی جانب اپنے رب کی طرف چلی گئی۔

سوال : سیاق و سباق اور شاعر کا حوالہ دے کر اس بند کی وضاحت کیجیے :

سیاق و سباق :

یہ بند دراصل ایک مرثیے سے لیا گیا ہے۔ اس مرثیے کے شاعر کا نام مرزا سلامت علی دبیر ہے۔ یہ مرثیہ واقعہ کربلا کا وہ وقت جب نواسہ رسولﷺ اپنے فرزند کے لیے یزیدی فوج سے پانی مانگنے جاتے ہیں کو مدِ نظر رکھ کر لکھا گیا ہے۔

تعارفِ شاعر :

مرزا سلامت علی نام اور دبیر تخلص تھا۔ آپ دہلی میں پیدا ہوئے۔ طالبعلمی کے زمانے سے ہی شعر گوئی کی جانب مائل ہوئے۔ آپ نے کم از کم تین ہزار مرثیے کہے ہیں۔ رباعی ، سلام اور نوحے ان کے علاوہ ہیں۔ دفترِ ماتم ، رباعیاتِ دبیر ، ابواب المصائب اور رسالہ مرزا دبیر آپ کی اہم کتابوں میں شامل ہیں۔ دفتر ماتم کی بیسیں جلدیں ہیں۔ میر انیس سے آپ کی قلمی معرکہ آرائیاں ہوتی رہتی تھیں۔ آپ کے شاگردوں کی بھی کثیر تعداد تھی۔

یہ کون بےزباں ہے تمھیں کچھ خیال ہے
در نجف ہے بانوے بے کس کا لال ہے
لو مان لو تمھیں قسم ذوالجلال ہے
یثرب کے شاہ زادے کا پہلا سوال ہے
پوتا علیؓ کا تم سے طلب گارِ آبِ ہے
دے دو کہ اس میں نام وری ہے ثواب ہے

تشریح :

اس بند میں شاعر فرماتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ کے نواسے وہاں فرماتے ہیں کہ دیکھو یہ بےزباں شیر خوار بچہ کس گھرانے کا سپوت ہے۔ یہ درنجف جیسا قیمتی ہے یہ نبی کے گھرانے کا بچہ ہے تم دیکھو تو یہ کس کا لال ہے۔ وہ ان لوگوں سے کہتے ہیں تمھیں اپنے رب کی قسم ہے تم مان جاؤ اور اس کے لیے پانی دے دو۔ یہ مدینے کا شاہ زادہ ہے اور یہ پہلی بار تم سے کوئی سوال کررہا ہے تم اسے خالی ہاتھ مٹ لوٹاؤ۔ یہ علی المرتضیؓ کا پوتا ہے جو تم سے پانی مانگ رہا ہے تم اسے پانی دے دو اسی میں تمہاری بھلائی پوشیدہ ہے۔ اگر تم اسے پانی پلا دو گے تو تمھاری نیک نامی ہوگی اور تمھیں ثواب ملےگا۔ تمھیں تمھارے رب کی قسم ہے اسے پلادو پانی۔