مرحوم کا سایہ

0

چھوٹا باپ کی قبر کی ڈھیری پہ دونوں ہاتھ پھیلائے مغموم بیٹھا تھا۔ قبرستان میں سوائے گورکن کے کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ باپ کو مرئے ابھی ایک ہفتہ ہی ہوا تھا۔ اچانک اس کے کانوں میں اک نامانوس آواز پڑی ، بیٹا ! یہ پھول رکھ لو۔ چھوٹے نے سر اٹھا کے بابا جی کی طرف دیکھا۔ بابا جی عمر میں ستر کے لگ بھگ معلوم ہو رہے تھے۔ سفید داڑھی، سفید لباس، سفید دستار، ہاتھ میں چھڑی، چہرے کی رنگت سفید اور رخسار سرخی مائل ، جیسے کوئی کابلی بزرگ ہوں۔ اس نے گلاب کے پھولوں سے بھری تھیلی چھوٹے کے حوالے کی۔ چھوٹا ابھی پھول قبر پہ ڈال ہی رہا تھا ، کہ بابا جی وہاں سے اچانک غائب ہو گئے۔

چھوٹا باپ کی قبر پہ پھول ڈال کے ابھی گھر پہنچا ہی تھا ، کہ اسے تیز بخار نے آن لیا۔ اس نے ساری کہانی بڑے بھیا کے گوش گزار کی تو بڑے بھیا نے اسے بڑے پیار سے سمجھایا ، کہ روز روز باپ کی قبر پہ جانا اچھا نہیں ہے۔ جون کی کڑکتی دھوپ میں تو بالکل بھی وہاں جانا مناسب نہیں ہے۔ کچھ دن چھوٹا بخار کی آغوش میں رہنے کے بعد تن درست ہو گیا۔ اس کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ کسی دن باپ کو خواب میں دیکھ لے۔ وہ باپ کی شکل دیکھنے کو ترس گیا تھا لیکن ایسا خواب وہ دیکھنے سے محروم ہی رہا۔

اکثر بخار کی حالت میں اسے اک خواب یاد آتا۔ وہ صاف پانی کی ایک چھوٹی سی ندی پہ پل بناتا ہے۔ تیز پانی کی ایک لہر آتی ہے اور پل کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتی ہے۔ وہ اچانک اٹھ بیٹھا۔

صبح کی پہلی اذان ہو رہی تھی۔ اسے گھر میں اک شور سنائی دیا۔ وہ ساتھ والے کمرے میں گیا تو اس کے باپ حالت نزاع میں تھے۔وہ پچھلے کئی سالوں سے دمے کے مرض میں مبتلا تھے۔ وہ باپ کی چارپائی کے ساتھ بیٹھ گیا۔ ان کے دونوں ہاتھوں کو دبانے لگ گیا۔ ان کی آخری سانسیں چل رہی تھی۔ وہ اٹک اٹک کے سانس لے رہے تھے۔ پھر اچانک ایک ہچکی آئی اور وہ ابدی سکون کی آغوش میں چلے گئے۔

بڑے بھیا نے ابا جی کو قبر میں اتارا۔ چھوٹے کو اپنے نقصان کی کیفیت کا اندازہ نہیں تھا۔ بڑے بھیا کو اس نے زندگی میں پہلی دفعہ روتے دیکھا۔
وقت کے ساتھ ساتھ چھوٹے کو جب باپ کی کمی محسوس ہونا شروع ہوئی ، تو وہ روز باپ کی قبر پہ جانے لگ گیا۔ چھوٹے کو باپ کی قبر کی پہچان ہمیشہ رہی لیکن منجھلے بھیا کو قبر ڈھونڈنی پڑتی۔ چھوٹے کی گورکن سے بھی اچھی خاصی صاحب سلامت ہو گئی۔ گورکن اسے اکثر بتاتا کہ آج بڑے بھیا قبر پہ آئے تھے۔

بڑے بھیا دماغی خلل میں مبتلا تھے۔ وہ کبھی بھی ایک ٹھکانے پر نہیں رہے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی گلی بازاروں میں گزار دی۔ وہ باتیں بہت نفیس اور نپی تلی کرتے۔ اچھے لب و لہجہ کے مالک تھے۔ وہ چھوٹے کو ہمیشہ کہتے کہ باپ کی قبر پکی کروا دو۔ جب بھی باپ کی قبر صاف ستھری ہوتی تو چھوٹے کو اندازہ ہو جاتا کہ آج بڑے بھیا قبر سے ہو کے گئے ہیں۔ چھوٹے نے گورکن سے قبر پکی کروانے کی بات کی۔ گورکن نے اسے بتایا کہ میری نظر میں ایک اچھا کاریگر ہے۔ وہ پیسے بھی معقول لے گا اور کام بھی نیت سے کرئے گا۔ بالآخر قبر پکی ہو گئی۔ جس دن قبر پکی ہوئی اسی دن چھوٹا واپس گھر جانے کے لیے اٹھا۔ اسے اچانک محسوس ہوا کہ اس کے ساتھ ساتھ کوئی چل رہا ہے۔ وہ گورکن سے کچھ ہی گز کے فاصلے پر اس کے پیچھے پیچھے جا رہا تھا۔

اچانک اسے ایک سایہ سا محسوس ہوا۔ پھر اس سائے نے انسانی روپ دھار لیا۔ اس نے چھوٹے کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اسے کہا کہ منجھلے سے ہوشیار رہنا وہ تمہاری جان کے درپے ہے۔ بڑے بھیا پہ ہمیشہ بھروسہ رکھنا اور اس کا خیال بھی رکھنا۔ وہ بہت سیدھا اور سادہ ہے۔ اس کے خلل کو کبھی بھی اس کی کمزوری نہ سمجھنا۔ حویلی میں جس طرف کچی کوٹھڑی تھی اس طرف اپنا گھر بنانا۔ میں تمہیں چھوٹے ہوتے کو مسجد لے کے جاتا تھا، اب بھی مسجد جایا کرو۔ میں اذان دیا کرتا تھا،تم بھی اذان دیا کرو۔ منجھلے سے کہنا کہ کبھی کبھی وہ بھی قبر پہ آ جایا کرئے۔ میری قبر پہ سر کی طرف ایک “سکھ چین” کا درخت بھی لگوا دینا۔

ماں اور بہنوں کا خیال رکھنا۔ دریں اثناء گورکن نے چھوٹے کو آواز دی کہ آپ اتنا پیچھے پیچھے کیوں آ رہے ہیں۔ جلدی آئیں دھوپ بہت تیز ہے۔ گورکن نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو چھوٹا اس کے پیچھے پیچھے آ رہا تھا ، لیکن اس کا منہ باپ کی قبر کی طرف تھا۔ وہ قبرستان کے میں گیٹ پر پہنچ چکے تھے۔ گورکن نے اسے اپنے کمرے میں آنے کو کہا کہ چائے پی کر جائیں۔ چھوٹے نے معذرت کی اور کہا کہ وہ جلدی میں ہے، اسے کچھ کام ہیں ۔ چھوٹا آج بہت خوش تھا۔ اس نے پچیس سال بعد اپنے باپ کو دیکھا تھا۔

پچیس سال اس نے ایسا خواب دیکھنے کی خواہش کی تھی ، جس میں اس کے باپ کی شکل نظر آئے۔ باپ کو مرئے پچیس سال ہو گئے تھے اور آج اس نے باپ کی وہی پچیس سال پہلے والی شکل دیکھی تھی۔

اس نے گھر جاتے ہی بڑے بھیا کو ڈھونڈا۔ بڑے بھیا کافی عرصے سے گردوں کی بیماری میں مبتلا تھے۔ اس کے گردوں اور مثانے میں پتھریاں تھیں۔ اس نے بڑے بھیا کو ہسپتال داخل کروایا۔ اس کا آپریشن کامیاب ہو گیا۔ اب بڑے بھیا تن درست ہو چکے تھے البتہ ذہنی خلل برقرار تھا۔ باپ سے ملاقات کے چھے ماہ بعد چھوٹا اپنی ماں اور بڑے بھیا کے ساتھ عمرہ کر کے واپس آ چکا تھا۔ آج اس نے محلے کی جامع مسجد میں پہلی دفعہ اذان دی تو سب محلے والے خوش ہو رہے تھے کہ چھوٹے کی آواز میں بالکل باپ کے جیسی شیرینی ہے۔

تحریر امتیاز احمد، کالم نویس، افسانہ نگار
[email protected]