معاشرے میں احساس کی کمی

0

ہم نے جس معاشرے میں جنم لیا بڑے ہوئے اور اسی معاشرے میں ہم نے اور ہمارے بچوں نے زندگیاں گزارنی ہیں تو سب سے پہلے ہم اپنے آپ کو اچھا بنائیں اسکے بعد ہم معاشرے کو اچھا بنانے کی بھرپور کوشش کریں تاکہ ہمارے لئے اور ہمارے مستقبل کےلئے اچھا ہو۔

آپ اور ہم جس معاشرے میں گزارا کر رہے ہیں وہ دن بدن برائی کی طرف بڑھتا جا رہا ہے۔ آئے دن کوئی نیا واقعہ ہمارے سامنے آتا ہے جو معاشرے کےلئے اچھا نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دینی تعلیمات کو ہم نے چھوڑ کر ماڈرن دنیا کی تعلیم (مغربی کلچر) کو ترجیح دے دی ہے اور اسی وجہ سے ہمارے اندر کا جو احساس ہے وہ ختم ہو چکا ہے۔

جب انسان کی حس (جس سے محسوس کیا جاتا ہے) ختم ہو جائے تو اس انسان کو اپنے بھی پرائے لگتے ہیں کیوں کہ اسکو اپنائیت کا احساس ہی ختم ہو جاتا ہے اور اسی طرح وہ اپنوں سے دور ہوتا جاتا ہے اور اپنے معاشرے میں ہوتی ہوئی کسی برائی کا بھی اسکو احساس تک نہیں ہوتا۔

آج کئی لوگ ایسے ہیں کہ جن کو برائی سے منع کرو تو سب سے پہلے پوچھتے ہیں کہ تو کون ہوتا ہے مجھے روکنے والا؟ جب احساس ختم ہو جائے تو اپنے بھی اپنے نہیں لگتے تو پرائے تو پھر بھی پرائے ہیں۔
اور جس انسان کو احساس ہو تو وہ رنگ، نسل، ذات، پات کو نظر انداز کر کے دوسرے انسان کی ہمدردی کرتا ہے، اسکی مدد کرتا ہے، اسکو اچھے بھلے کی تمیز سکھاتا ہے۔

آجکل کے زمانے میں کئی لوگ ایسے ہیں جنکے گھروں میں ایک وقت کا کھانا بھی نہیں پکتا اور ہم لوگ آئے دن نئے نئے طعام اور کھانے کےلئے ریسٹورنٹ کا رخ کرتے ہیں اور ہمیں احساس تک نہیں ہوتا کہ ہمارے پڑوس میں ہی بچے بغیر کھائے سو گئے۔

اگر آج ہم نے کسی کی پرواہ نہیں کی، کسی کا احساس نہیں کیا تو کل ہمارا یا ہمارے بچوں کا بھی کوئی احساس نہیں کرے گا اور یاد رکھیں وقت ہمیشہ یکساں نہیں رہتا۔ کئی لوگ ایسے آج بھی موجود ہیں جو دولت کے نشے میں غریبوں کو انسان ہی نہیں سمجھتے تھے ان کی پرواہ نہیں کرتے تھے اور پھر وقت نے انکی بھی قدر نہیں کی اور وہی کروڑپتی آج راستوں پر دھکے کھا رہے ہیں۔

اسی لیے میرے بھائیو دوسروں کا احساس کریں اور معاشرے کو اچھا بنائیں تو ہمارا مستقبل بھی اچھا ہوگا۔ اگر آج احساس نہیں کیا تو کل ہم سب پچھتاوے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ معاشرے کو سدھارنے کا خود بھی احساس کریں دوسروں کو بھی احساس دلائیں۔ اللہ پاک ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے۔

تحریر شوکت بن یاسین