منظور تھی یہ شکل ،تجلی کو نور کی

0

غزل

منظور تھی یہ شکل ،تجلی کو نور کی
قسمت کھلی ترے قد و رخ سے ظہور کی
اک خوں چکا کفن میں ہزاروں بناؤ ہیں
پڑتی ہے آنکھ تیرے شہیدوں پہ حور کی
واعظ ! نہ تم پیو، نہ کسی کو پلا سکو
کیا بات ہے تمہاری شرابِ طہور کی
آمد بہار کی ہے، جو بُلبُل ہے نغمہ سنج
اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی
گرمی سہی کلام میں، لیکن نہ اس قدر
کی جس سے بات، اس نے شکایت ضرور کی

تشریح

پہلا شعر

منظور تھی یہ شکل ،تجلی کو نور کی
قسمت کھلی ترے قد و رخ سے ظہور کی

شاعر کہتا ہے کہ نُور خُدا کو اپنا جلوہ دکھانے کے لئے تیرے ہی قدورخُ کا انتظار تھا کہ ایسی حسین اور پیاری صورت ملے اس میں ظہور کروں۔ لہٰذا تیرے قدموں کے سبب گویا ظہور کی قسمت کھل گئی ہے کہ وہ ظاہر ہو سکی ہے۔

دوسرا شعر

اک خوں چکا کفن میں ہزاروں بناؤ ہیں
پڑتی ہے آنکھ تیرے شہیدوں پہ حور کی

خون ٹپکتے لباس کو دیکھ کر ہر شخص وحشت زدہ ہو جاتا ہے۔لیکن تیرے شہیدوں کے خون چکاں کفن میں کروڑوں بناؤ ہیں اور وہ ایسے بھلے معلوم ہوتے ہیں کہ ہماری بھی آنکھیں انہیں حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتی ہیں اور دل سے پسند کرتی ہیں۔

تیسرا شعر

واعظ ! نہ تم پیو، نہ کسی کو پلا سکو
کیا بات ہے تمہاری شرابِ طہور کی

اس شعر میں شاعر واعظ کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ تمھاری شرابِ طہور، اس پاکیزہ شراب کی جو جنت میں ملے گی، کی کیا بات ہے کہ نہ تم خود اس کو پی سکتے ہو اور نہ کسی کو پلا سکتے ہو۔ یہ تمہاری شراب محض خیالی ہے کہ جس کی تعریفوں سے تم اپنا اور دوسروں کا دل خوش کر لیا کرتے ہو۔

چوتھا شعر

آمد بہار کی ہے، جو بُلبُل ہے نغمہ سنج
اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی

شاعر کہتا ہے کہ بُلبُل نغمہ زن ہے۔اس کی نغمہ سنحبی سےمعلوم ہوتا ہے کہ بہار آنے والی ہے۔ لیکن یہ خبر پرندے کی زبانی ہے اور ہم نے بس اُڑتے اُڑتے سنی ہے۔ اس لئے خُدا جانے سچ ہے یا جھوٹ۔

پانچواں شعر

کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی

حضرت موسٰی نے جب خُدا سے ضد کی کہ اپنا جلوہ دکھائیے تو جواب ملا کہ تم نہیں دیکھ سکو گے۔اب غالب کہتے ہیں کہ یہ کیا ضروری ہے کہ ہر ایک کو ایک سا جواب ملے۔یعنی اسی طرح کا جواب ملے جو حضرت موسٰی کو ملا تھا۔ہو سکتا ہے ہماری درخواست منظور ہو جائے اور خدا ہمیں اپنا جلوہ دکھا دے۔اس لیے ہمیں کوہِ طور کی سیر کرنی چاہیے اور اپنی قسمت آزمانی چاہیے۔

چھٹا شعر

گرمی سہی کلام میں، لیکن نہ اس قدر
کی جس سے بات، اس نے شکایت ضرور کی

غالب کہتے ہیں کہ گفتگو میں گرمی ہونی چاہیے مگر اتنی زیادہ نہیں ہونی چاہے کہ جس سے بات کی جائے وہ آپ کی گرمئی کلام کی شکایت زبان پر لائے ،یعنی گرمئی کلام کی شکایت کرے۔